بول چال انسانی معاشرے کا خاصہ ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ انسان نے بولنا کب شروع کیا اور اِس بولنے کے عمل میں ارتقائی سفر کے دوران اِس نے جو بھی الفاظ سیکھے ہیں اُن کے ’متفقہ و متنازعہ مطالب‘ سے پیدا ہونے والی صورتحال پر ٹیکنالوجی اور تعلیمی ترجیحات کس قدر اور کس طرح اثر انداز ہو رہی ہیں۔ مشہور ماہر لسانیات ’جارج پولوس‘ جن کی تعلیم و تحقیق کا بیشتر حصہ براعظم افریقہ میں بولی جانے والی زبانوں کے صوتیاتی اور لسانی ڈھانچے پر تحقیق سے متعلق ہے اور اُنہوں نے انسانی زبانوں کے ارتقا کے حوالے سے کئی کتابیں بھی تحریر کی ہیں جنہیں سند مانا جاتا ہے۔ جارج پولوس نے اپنی حالیہ تصنیف ’آن دی اوریجن آف ہیومن اسپیچ اینڈ لینگویج (انسانی نطق اور زبان کا آغاز) میں نئی تحقیق پیش کی ہے اور اِسی بنیادی سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کی ہے کہ انسان نے بولنے کا آغاز کب اور کہاں سے کیا؟ تحقیق سے علم ہوا ہے کہ ستر ہزار سال پہلے انسان اپنے منہ سے مختلف قسم کی آوازیں خارج کرتا تھا‘ جن سے اُس کے جذبات کا اظہار ہوتا تھا۔ اس تحقیق میں انسان کروڑوں یا لاکھوں سال پہلے سے بولنے کے دعوؤں کی تردید کی گئی ہے۔ مذکورہ تحقیق بنیادی طور پر صوتی یعنی نطق سے خارج ہونے والی آوازیں اور لسانی یعنی زبان کے تجزئیات پر مبنی ہے لیکن اس میں دیگر شعبوں کو بھی مدنظر رکھا گیا ہے جن میں پیلیو اینتھروپولوجی (قدیم انسان کا مطالعہ)‘ آثار قدیمہ (فوسلز اور دیگر باقیات کا تجزیہ)‘ اناٹومی (جسمانی ساخت کا مطالعہ) اور جینیات (جین کا مطالعہ) شامل ہیں۔ جارج پولوس نے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ آج کا جدید انسان (ہومو سیپینز) ’گونگا‘ تھا اور اِس نوع سے ’بولنے والی‘ نوع (حالت میں اِس کی تبدیلی براعظم افریقہ سے ہونے والی ہجرت سے شروع ہوئی۔ افریقی براعظم سے نکلتے وقت ’مہم جو‘ اپنے منہ سے آوازیں پیدا کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔ یہ صلاحیت کسی بھی دیگر چیز کے مقابلے میں کہیں زیادہ اہمیت کی حامل تھی۔ اس کے ذریعے انہوں نے ایسی دنیا میں قدم رکھا جہاں دیگر تمام انواع پر غلبہ حاصل کرنا پھر اِن کے لئے زیادہ مشکل نہ رہا۔ زبان نے ہمارے ارتقائی سفر کے دوران آگے بڑھنے میں ’جدید انسانوں‘ کی بہت مدد کی ہے لیکن یہی زبان آسانی کے ساتھ مشکل بھی بن گئی ہے بالخصوص جب ہم زبان کے صحیح استعمال اور اِس کے متفقہ مطالب کا تعین یا اُن کی شناخت کرنا چاہتے ہیں۔انسانی معاشرے نے اب تک جو کچھ بھی سیکھا ہے اُس کا ایک پہلو یہ ہے کہ الفاظ پر نہیں بلکہ اِس کی بنیاد الفاظ کے ”معنی“ پر ہے جس نے انسانی ادراک میں اضافہ اور ایک دوسرے سے بات چیت (مواصلات) میں ہمیشہ کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ یہی پہلو انسانی دماغ اور بیرونی دنیا کے درمیان رابطے یعنی ’پُل‘ کا کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ سوال اپنی جگہ اہم ہے کہ کیا معنی متعین کئے جا سکتے ہیں یا یہ کہ الفاظ کے معانی تبدیلی کے تابع ہوتے ہیں اور یہ بات علما‘ مفکرین‘ فلسفیوں اور ماہر لسانیات کے لئے غور و فکر کا موضوع رہی ہے۔ کچھ افراد معنی کے معروضی نقطہ نظر کو اہم سمجھتے ہوئے دلیل دیتے ہیں کہ یہ سیاق و سباق یا تشریحات کی صورت موجود ہوتی ہے۔ماہر لسانیات کا مؤقف ہے کہ لغت (گرائمر) کے قواعد پر سختی سے عمل کیا جائے تو الفاظ کے مستقل معنی پیدا ہو سکتے ہیں جنہیں وہ
درست سمجھتے ہیں تاہم کسی لفظ کے ’معنی‘ اُس کے بارے میں دیئے جانے والے دلائل اور اِن دلائل میں موجود خامیوں کا مجموعہ ہو سکتے ہیں یعنی دلیل کو دلیل سے شکست دی جا سکتی ہے جس کے لئے علم کی ایک خاص شاخ ’منطق‘ کہلاتی ہے۔ الفاظ کے سیاق و سباق ہوتے ہیں اور اِن کے لسانی تغیرات گرائمر کے قواعد کو اِس حد تک سادہ بناتے ہیں کہ مستحکم مواصلات کے لئے مقررہ معنی یا سیاق و سباق قابل قبول نہیں رہتے۔ دوسری طرف مادی علوم انسانی معاشرے کو تبدیل کر رہے ہیں لیکن اِن کے ذریعے فکری ترقی اور دریافت سے جڑے امتحانات کا مقابلہ کرنے کا امکان نہیں۔ فکسڈ سیال بحث میں غالب نقطہ نظر معنی کو متحرک‘ سیال اور شخصی تعمیر (ذاتی ترجیح) کے طور پر دیکھتا ہے۔ اس نقطہ نظر کو پیش نظر رکھا جائے تو ہمارے گردوپیش (ماحول) میں فطری تشریحات کا فقدان پایا جاتا ہے اور یہ انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے لئے متحرک‘ ترقی پذیر اور سیاق و سباق کے تصورات کی بنیاد پر الفاظ کے ایسے مطالب و معانی تفویض کریں جو ماضی کی نہیں بلکہ
آج (یعنی حال) کی ترجمانی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں جو معاشرتی تعمیر‘ متحرک تشریح اور جاری انسانی بات چیت پر غور و فکر اور اِس کی اصلاح سے ممکن ہے۔ الفاظ کے انسانی اور الفاظ کے فطری معنی الگ الگ بھی ہو سکتے ہیں لیکن یہ ذمہ داری انسان ہی کی ہے کہ وہ فرضی نمائندگی کے ذریعے مطالب میں اضافہ کرتا چلا جائے جیسا کہ ہمیں عربی‘ فارسی‘ اُردو اور بالخصوص انگریزی زبانوں میں ایک ہی لفظ کے درجنوں مطالب ملتے ہیں بلکہ عربی دنیا کی ایسی خاص زبان ہے کہ جس میں ایک ہی لفظ کے 2 ایسے معانی ہو سکتے ہیں جس میں ایک دوسرے کا بالکل اُلٹ ہو۔ اُردو زبان کی صحت اور علوم کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ عربی‘ فارسی اور ترکی زبانوں سے مل کر بننے والی اِس زبان کو ’گرائمر‘ میں محدود کرنے بجائے اِس لغت کے قواعد سے آزاد کر دیا جائے جس طرح ترکیہ میں ایک تجربہ ہوا اور آج ترکیہ میں الفاظ ’رومن انگریزی‘ میں لکھے‘ سمجھے اور پڑھائے جا رہے ہیں لیکن یہ ایک الگ موضوع ہے جن کا خلاصہ یہ ہے کہ لسانی اضافیت پیش نظر رکھی جائے جو یہ ہے کہ جو کوئی زبان بھی ہم بولتے ہیں وہ چونکہ ہمارے ادراک اور معنی کی تشکیل کر رہی ہوتی ہے اِس لئے زبان کی اہمیت سے انکار نہیں کرنا چاہئے اور اِس میں وسعت کے لئے کوششیں بصورت تعلیم و تحقیق‘ غور و فکر جاری رہنی چاہیئں چونکہ مختلف زبانیں حقیقت کو مختلف انداز میں پیش (درجہ بندی) کرتی ہیں اور مختلف صورتوں میں تصور کرتی ہیں‘ اِس لئے تشریح میں تغیر‘ چاہے وہ کتنا ہی معمولی کیوں نہ ہو‘ متوقع ہونا چاہئے۔ اِس کے علاؤہ یہ بات بھی نہیں بھولنی چاہئے کہ علامتوں اور الفاظ سے وابستہ تصورات‘ اِن کے سیاق و سباق اور وقت کے ساتھ زبان کا ارتقا ایک ساتھ آگے بڑھ رہے ہوتے ہیں‘ عملی زندگی مختلف لوگوں کیلئے اُن کے تجربات کی بنیاد پر ایک سے زیادہ مطالب و معنی رکھتی ہے اور مختلف ثقافتیں اور ان کے منفرد عناصر معنی پر اثرانداز ہوتے ہوئے سیاق و سباق تشکیل دیتے ہیں مثال کے طور پر‘ اچھے اور بُرے کے تصورات مختلف ثقافتوں میں مختلف ہوتے ہیں اور یہ ثقافتوں کا حسن ہے کہ اِن میں قانونی‘ مذہبی اور مادی طرز عمل معنی کے سیاق و سباق اور شخصی تشریح کر رہے ہوتے ہیں۔ آج کی دنیا میں شاید ہی کسی لفظ کا کوئی ایک اور کوئی متفقہ مطلب ہو‘ یہاں تک کہ کسی تعلیمی نظم و ضبط کے اندر بھی ایک ہی لفظ کے کئی ایک معانی استعمال ہو رہے ہوتے ہیں۔ ضرورت اِس امر کی ہے کہ نئی نسل کو الفاظ کی دنیا سے شعوری طور پر روشناس کرایا جائے۔