معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہونے والی تفصیلی رپورٹ کے مطابق افغانستان میں ’ای وی (EV) کہلانے والی دھات‘ کے وسیع ذخائر موجود ہیں جن سے افغان حکومت اور چین کے درمیان شراکت قائم ہو رہی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ’ای وی دھات‘ سے مراد ’لیتھیم‘ ہے جس کا استعمال ’الیکٹرانک وہیکلز (EVs)‘ میں کیا جاتا ہے اُور یہ دھات برقی گاڑیوں کا اہم جزو ہے۔ مذکورہ تفصیلی رپورٹ میں جن افغانوں سے بات چیت کی گئی اُن میں ولی ساجد نامی شخص بھی شامل ہیں‘ جنہوں نے بنجر پہاڑیوں اور زرخیز کھیتوں میں امریکی فوجیوں سے لڑتے ہوئے برسوں گزارے۔ اب افغان حکومت کو امن چاہئے کیونکہ بنا امن وہ ملک کے معدنی وسائل سے استفادہ اور فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔سال دوہزاردس کی ایک یادداشت میں‘ امریکہ کی پینٹاگون ٹاسک فورس برائے کاروبار اور استحکام آپریشنز نے کہا تھا کہ افغانستان میں ”لیتھیئم کے ذخائر سعودی عرب کے تیل کی طرح وسیع ہیں۔ علاو¿ہ ازیں امریکی جیولوجیکل سروے نے بھی تحقیق کی تھی اور کہا تھا کہ افغانستان کو مستقبل میں لیتھیئم کا اہم ذریعہ سمجھا جائے گا۔ اندازہ ہے کہ سال 2040ءتک لیتھیئم کی مانگ میں چالیس گنا اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ اس دوران برقی گاڑیوں کے عالمی استعمال میں اضافہ ہوگا۔ لیتھیئم بیٹریوں میں استعمال ہوتا ہے اور بیٹریاں برقی گاڑیوں کو چلاتی ہیں۔ سال دوہزاراکیس میں طالبان کی جانب سے افغانستان پر قبضے کے بعد امریکہ اور مغرب میں اس کے اتحادیوں کی جانب سے اقتصادی پابندیاں عائد کی گئیں اور اُس موقع پر چین نے افغانستان کی مدد کا فیصلہ کیا اور اپنی صنعتی ضروریات کو افغان معدنیات سے پورا کرنے لگا۔ لیتھیئم کی قیمت سال دوہزاراکیس سے دوہزاربائیس تک آٹھ گنا بڑھی۔ درجنوں چینی کمپنیاں افغانستان میں کان کنی کر رہی ہیں جہاں بہت سی معدنیات کے وسیع ذخائر موجود ہیں۔نئی افغان حکومت اب بھی اس بات پر غور کر رہی ہے کہ معدنیات کی زیر زمین موجود ذخائر سے کس طرح فائدہ اٹھایا جائے۔ کان کنی کرنے کے بعد معدنیات چین منتقل کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ دارالحکومت کابل اب بھی بڑھتی ہوئی بین الاقوامی مارکیٹ میں لیتھیئم کی دستیابی کے لئے پالیسی وضع کرنے میں لگا ہوا ہے۔ جنوری دوہزاراکیس میں طالبان حکام نے ایک چینی تاجر کو گرفتار کیا جس پر الزام تھا کہ وہ پاکستان کے راستے صوبہ کنڑ سے معدنیات چین اسمگل کر رہا ہے اور اُس کے پاس معدنیات کی نقل و حمل کے لئے اجازت نامہ نہیں تھا۔ کابل غیر ملکی اداروں سے بات چیت کا خواہاں ہے تاکہ اپنے ہاں معدنیات سے فائدہ اُٹھا سکے اور اِس مقصد کے لئے وہ پسندیدہ ملک چین کی طرف دیکھ رہا ہے تاہم ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چین کے ساتھ معاہدے کے بعد بھی افغانستان سے دھاتوں کی عالمی مارکیٹ میں آنے پر کئی سال لگ سکتے ہیں کیونکہ معدنیات تک رسائی آسان نہیں ہے اور ضروری بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کے لئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ افغانستان کے معدنی ذخائر کا صدیوں سے استحصال جاری ہے۔ اِن میں کوارٹج‘ ٹورمیلین اور کنزائٹ جیسے قیمتی پتھر نکالنے اور انہیں وسطی ایشیا اور ہمسایہ ملک پاکستان کے بازاروں میں فروخت کرنے کے کاروبار شامل ہیں۔ ایک امریکی ماہر ارضیات کرسٹوفر ونک کے مطابق ”افغانستان میں معدنیات کے جس قدر ذخائر ہیں ایسا کسی دوسرے ملک میں نہیں دیکھے گئے لیکن معدنیات کی نشاندہی اور اُنہیں نکالنے کے لئے بنیادی ارضیاتی کام تاحال نہیں کیا جا سکا ہے اُور اب یہ کام چین کے ماہرین کر رہے ہیں جو اس مواصلاتی نیٹ ورک کو بھی بہتر بنا رہے ہیں۔ افغانستان میں صنعتی ترقی کے لئے بنیادی حکمت عملی کا فقدان ہے لیکن معدنی وسائل کی موجودگی میں بنیادی ڈھانچے کی تعمیر اور ترقی کے لئے افغانستان کو بہت سے ممالک تعاون کی ضرورت ہے اور اِس سلسلے میں صرف چین تن تنہا کارآمد ثابت نہیں ہوسکتا۔ افغانستان کے وزیر معدنیات اور ایک سینئر افغان رہنما شہاب الدین نے حال ہی میں اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ چینی کمپنی کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی ہے اور معدنیات میں چین نے 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا عندیہ دیا ہے۔ چین کی جانب سے افغانستان میں لیتھیم آئرن پراسیسنگ پلانٹ اور بیٹریاں بنانے کی فیکٹریاں لگانے کا وعدہ بھی کیا گیا ہے جس سے مقامی افراد کے لئے روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے تاہم اس پوری صورتحال میں کئی ایک سوالات اُٹھتے ہیں جیسا کہ افغانستان اپنی معدنی دولت سے کیسے فائدہ اٹھا سکتا ہے؟ دوسری اہم بات یہ ہے کہ افغان معدنی دولت کا پاکستان اور چین کی سرحدوں کے قریب ہے جس کی وجہ سے افغانستان کو اُمید ہے کہ دونوں ہمسایہ ممالک (چین اور پاکستان) افغان معدنیات کو عالمی منڈیوں تک لانے کے لئے تعاون کریں گے۔ بیجنگ اور اسلام آباد نے تسلیم کیا ہے کہ چین کو پاکستان اور افغانستان سے ملانے والے ہائی ویز نیٹ ورکس کی ترقی کو شامل کرنے سے اہم اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے۔ یہ ایک طریقہ ہے جس سے افغان اپنی معدنی دولت خاص طور پر لیتھیم و دیگر دھاتوں کو نکالنے اور افغانستان میں صنعتی ترقی کا دور شروع کریں گے جس میں سراسر فائدہ چین کا ہے جہاں کی الیکٹرک وہیکل انڈسٹری کی نظریں افغان لیتھیئم ذخائر پر مرکوز ہیں۔