ملک میں ڈیجیٹل مردم شماری کے نتائج سامنے آگئے ہیں‘ جس کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 24کروڑ 14لاکھ 99431تک پہنچ گئی۔ پنجاب کی آبادی بارہ کروڑ 76لاکھ،سندھ کی پانچ کروڑ 56لاکھ، بلوچستان کی ایک کروڑ 48لاکھ اور خیبر پختونخوا کی آبادی چار کروڑ ، 85لاکھ6095بتائی گئی ہے۔ملک میں آبادی میں اضافے کی شرح2.55فیصد ریکارڈ کی گئی ہے‘ اب ذرا اپنے صوبے خیبر پختونخوا کی نئی مردم شماری کے نتائج پر نظر دوڑاتے ہیں‘ صوبے کے 36اضلاع میں سے صوبائی دارالحکومت پشاور آبادی کے لحاظ سے صوبے کا سب سے بڑا ضلع قرار پایا ہے‘پشاور کی مجموعی آبادی 47لاکھ ، 59 ہزار ہوگئی ہے ان میں افغان مہاجرین اور صوبے کے دیگر اضلاع سے عارضی طور پر پشاور آنے والے شامل نہیں ہیں‘ انہیں بھی شامل کیا جائے تو پشاور کی آبادی ساٹھ لاکھ کے لگ بھگ ہوجائے گی‘ آبادی کے لحاظ سے پشاور کے بعد مردان 27لاکھ،45ہزار نفوس کےساتھ دوسرا بڑا ضلع قرار پایا‘ سوات 26لاکھ87ہزار آبادی کے ساتھ تیسرااور صوابی 18لاکھ 95ہزار کی آبادی کے ساتھ چوتھے نمبر پر ہے‘ چارسدہ کی آبادی اٹھارہ لاکھ پینتیس ہزار، ڈیرہ اسماعیل خان اٹھارہ لاکھ تیس ہزار، مانسہرہ سترہ لاکھ ستانوے ہزار، نوشہرہ سترہ لاکھ اکتالیس ہزار، دیر بالا سولہ لاکھ، ایبٹ آباد چودہ لاکھ انیس ہزار، بنوں تیرہ لاکھ اٹھاون ہزار، باجوڑ بارہ لاکھ اٹھاسی ہزار، کوہاٹ بارہ لاکھ چونتیس ہزار، ہری پور گیارہ لاکھ ستر ہزاراور ضلع خیبرکی آبادی گیارہ لاکھ چھیالیس ہزار ہوگئی۔دیر پائین، بونیر اور لکی مروت کی آبادی دس لاکھ سے زیادہ، شانگلہ کی آٹھ لاکھ، جنوبی وزیرستان پونے نولاکھ، ملاکنڈ آٹھ لاکھ،کوہاٹ آٹھ لاکھ ، کرم سات، شمالی وزیرستان پونے سات، بٹگرام ، مہمند، ہنگو پانچ لاکھ، ٹانک اور کوہستان چار لاکھ، اورکزئی، لوئر کوہستان اور لوئر چترال تین لاکھ سے زائد، کولائی پالس دو لاکھ اسی ہزار، تور غر دو لاکھ اور اپرچترال کی آبادی ایک لاکھ پچانوے ہزار بتائی گئی ہے‘ڈیجیٹل مردم شماری پر مختلف حلقوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار بھی کیا جارہا ہے‘ ان حلقوں کا کہنا ہے کہ گھر گھر جاکر معلومات لینے کے بجائے ایک ہی جگہ بیٹھ کر کچھ انٹریاں کی گئیں ہیں اور بہت سے خاندانوں کا اندراج نہیں ہوسکا ہے‘ مثال کے طور پر چترال اپر اور لوئر کو ملا کر کل آبادی سات اور آٹھ لاکھ کے درمیان ہے‘ وہاں سے اکثر لوگ تعلیم کے حصول، ملازمت یا محنت مزدوری کےلئے پشاور، اسلام آباد، لاہور، کراچی اور بیرون ملک گئے ہوئے ہیں‘ ان لوگوں کو مقامی آبادی میں شمار نہیں کیاگیا‘مردم شماری کے اعدادوشمار کی بنیاد پر ہی علاقے کےلئے ترقیاتی منصوبے بنائے جاتے ہیں‘ لوگوں کو پانی، بجلی، گیس کی سہولتیں ان کی آبادی کی بنیاد پر مہیا کی جاتی ہیں‘ صحت اور تعلیم کے ادارے بھی آبادی کو سامنے رکھ کر قائم کئے جاتے ہیں‘ آبادی کی بنیاد پر ہی قومی اور صوبائی اسمبلی کے حلقوں کا تعین کیا جاتا ہے‘ ضلع چترال رقبے کے لحاظ سے صوبے کا سب سے بڑا اور ملک کا دوسرا بڑا ضلع ہے ارندو سے لےکر شندور اور بروغل تک اس کاکل رقبہ ساڑھے چودہ ہزار مربع کلو میٹر ہے‘ ایک ایم این یا ایم پی اے کےلئے ایک مہینے میں بھی پورے حلقے میں انتخابی مہم چلانا ممکن نہیں ہوتا‘ ایسے پسماندہ اور دور افتادہ علاقوں کو ترجیحی بنیادوں پر ترقی دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔ چترال گزشتہ چند سالوں سے قدرتی آفات سے متاثر ہورہا ہے۔ سڑکیں، پل، سکول، صحت مراکز سیلاب برد ہوچکے ہیں۔جب تک اس علاقے کو خصوصی توجہ کا علاقہ قرار نہیں دیا جاتا‘مسائل بدستور موجود رہیں گے۔