ایران پاکستان گیس پائپ لائن معاہدہ معطل

سخت معاشی حالات میں پاکستان نے’ایران پاکستان گیس پائپ لائن‘ منصوبے پر عمل درآمد سے تحریراً معذرت کر لی ہے اور ایران کو آگاہ کر دیا ہے کہ جب تک اُس پر عالمی اقتصادی پابندیاں ختم نہیں ہو جاتیں اُس وقت تک پاکستان مذکورہ پائپ لائن منصوبے سے استفادہ نہیں کر سکتا ۔ جبکہ دوسری طرف پاکستان میں گیس کی قلت اُس انتہا کو پہنچ چکی ہے کہ موسم گرما میں گیس کے گھریلو صارفین کے لئے بھی گیس کی فراہمی ممکن نہیں رہی! ذرائع کے مطابق اِس حوالے سے ”فورس میجر اینڈ ایکسکیوزنگ ایونٹ نوٹس“ جاری کیا گیا ہے جو ممالک کے درمیان معاہدوں پر اُس صورت میں عمل درآمد معطل کرتے وقت کیا جاتا ہے جب حالات قابو سے باہر ہوں اور پاکستان نے معاہدہ معطل کرنے کی وجہ’بیرونی عوامل‘ کو قرار دیا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ وہ ’بیرونی عوامل‘ ایران پر امریکی پابندیاں ہیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ایران سے سستے داموں گیس اُور پیٹرولیم مصنوعات خرید کر پاکستان اپنی قومی پیداوار میں اضافہ کر سکتا ہے جس کی راہ مہنگائی سے ستائے ہوئے عوام دیکھ رہے ہیں۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان جن غیرملکی قرضوں پر انحصار کر رہا ہے وہ مہنگے داموں تیل و گیس اور دیگر اشیا کی درآمد کی صورت خرچ ہو جاتے ہیں جبکہ سستے داموں ایندھن کا استعمال کر کے سستی بجلی پیدا کی جا سکتی ہے جس سے پاکستان کے گھریلو اور صنعتی صارفین کو سکھ کا سانس لینے کا موقع ملے گا۔حقیقت یہ ہے کہ اگر قومی معیشت کی بحالی کے لئے اپنی ضرورت اور دستیاب مواقعوں سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے فیصلے نہ کئے گئے تو معاشی مشکلات کا دورانیہ طویل ہوتا چلا جائے گا۔ چوتھا اہم نکتہ یہ ہے کہ ایران گیس پائپ صرف پاکستان ہی کے لئے نہیں بلکہ پاکستان کے راستے چین اور بھارت کو بھی فراہم کی جا سکتی ہے جس سے پاکستان کو راہداری کے طور پر ’آئی ایم ایف‘ سے ملنے والے قرض سے زیادہ بڑی رقم حاصل ہو سکتی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ امریکہ اور اِس کے مالیاتی اداروں کے دباو¿ میں آئے بغیر ملک کے مستقبل کے بارے میں سوچا جائے ۔ المیہ ہے کہ چوبیس کروڑ عوام کا ملک جو جنوبی ایشیائی خطے کے دیگر ممالک کے مقابلے توانائی کی شدید قلت کا شکار ہے لیکن ایک دہائی سے زائد عرصہ ایران گیس پائپ لائن منصوبے کو سرد خانے میں رکھنے کے بعد بالآخر اِسے ختم کر دیا گیا ہے۔ اِس حوالے سے وزیر مملکت برائے پیٹرولیم ڈاکٹر مصدق ملک کی جانب سے قومی اسمبلی میں جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کہا گیا ہے کہ ”پاکستان نے گیس سیلز اینڈ پرچیز اگریمنٹ (جی ایس پی اے) کے تحت ایران کو ایک فورس 
میجر اینڈ ایکسکیوزنگ نوٹس جاری کیا ہے‘ جس کے نتیجے میں پاکستان معاہدے کی تکمیل کے حوالے سے اپنی ذمہ داریوں سے ازخود الگ ہو گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ ستمبر 2012ءمیں اعلان کیا گیا تھا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن بچھانے کا کام ’اکتوبر 2012ئ‘ میں شروع کیا جائے گا اور یہ دسمبر 2012ءمیں مکمل ہو جائے گا لیکن ایسا نہ ہو سکا اور 30جنوری 2013ءکے پاکستان کی جانب سے اِس پائپ لائن منصوبے کی منظوری دی گئی جس کے بعد 11 مارچ 2013ءکے روز اُس وقت کے صدر مملکت آصف علی زرداری اور ایران کے صدر محمود احمدی نژاد نے اِس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا جو مجموعی طور پر 2775 کلومیٹر طویل ہے اور اِس کا نکتہ¿ آغاز ایران کے شہر اسلویہ‘ باشہر ہے جہاں سے پائپ لائن براستہ بندر عباس سے ایران شہر‘ 
خضدار‘ سوئی اور ملتان (صوبہ پنجاب) تک بچھائی جانی تھی اور سنگ بنیاد رکھنے کے وقت کہا گیا کہ یہ منصوبہ زیادہ سے زیادہ دسمبر 2017ءمیں مکمل کر لیا جائے گا لیکن پاکستان نے کبھی بھی کسی کمپنی کو اپنے ہاں پائپ لائن بچھانے کا کام نہیں سونپا جبکہ ایک دوست ملک نے پاکستان کو اِس کام کے لئے ایک ارب ڈالر فراہم کرنے کی پیشکش بھی کی۔ 25 فروری 2014ءکے روز اُس وقت کے وزیر پیٹرولیم و قدرتی وسائل شاہد خاقان عباسی نے قومی اسمبلی ایوان سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایران گیس پائپ لائن منصوبہ پاکستان کی ترجیح نہیں رہا!ایسے حالات میں کہ جب پاکستان میں سخت ترین معاشی حالات سے گزر رہا ہے اور قومی پیداوار اور ترقی کی رفتار تاریخ کی کم ترین سطح پر ہے۔پاکستان ایران گیس پائپ لائن منصوبے کا خاتمہ حیرت کا باعث ہے۔یہ درست ہے کہ کوئی بھی ملک ایسے منصوبے کو ہاتھ سے نہیں جانے دیگا اگر اسے موافق حالات میسر ہوں، ایران پر عائد پابندیوں کے باعث پاکستان کیلئے اس منصوبے پر عمل درآمد کرناممکن نہیں تاہم اسکی بڑی وجہ یہی ہے کہ ہم مغربی مالیاتی اداروں کے ساتھ مالیاتی لین دین میں پھنسے ہوئے ہیں۔ اگر ہم ملکی وسائل سے بھر پور استفادہ کرنے اور خطے کے ممالک کے ساتھ قریبی معاشی تعلقات کی پالیسی اپنائیںتو کوئی وجہ نہیں کہ ہم نہ صرف بیرونی قرضوں سے نجات پائیں اب جب کہ پاک ایران منصوبہ جو گیس کی کمی کو پورا کرنے کیلئے ایک بہترین موقع تھا اگر ہاتھ سے نکل گیا ہے تو اس کے متبادل کے طور پر گیس کی کمی کو ملکی وسائل سے پورا کرنے پر بھر پور توجہ مرکوز کرنا ہوگی یعنی تیل اور گیس کے جس قدر ذخائر ملک میںموجود ہیں ان کی دریافت اور ان سے استفادے کا عمل تیز کرنا ہوگا۔ملک میں تیل اور گیس کے وسیع ذخائر موجود ہے اس کے ساتھ ساتھ دیگر معدنیات کی بھی کمی نہیں تاہم ان وسائل سے استفاد ہ کرنے کے لئے موثر پالیسی پر عمل پیرا ہونا ہوگاتب ہی ان سے فائدہ اٹھایا جا سکے گا۔