یونانی فلسفی افلاطون نے اپنی کتاب ’دی ری پبلک‘ (جو 514ءاور 520ءکے درمیان لکھی گئی) میں ایک غار کا تصور پیش کیا کہ ایک انسان غار کے اندر بیٹھا ہے اور اُس کی پشت روشنی کی طرف ہے۔ غار کے اندر موجود اندھیرے میں روشنی کی پرچھائیاں بن رہی ہیں۔ وہ پرچھائیوں کو دیکھ کر کسی نتیجے تک پہنچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ تمثیل درحقیقت ”تعلیم اور اِس کے اثرات اور انسانی فطرت“ سے متعلق ہے کہ کس طرح انسان جس مشاہدے کو علم سمجھ رہا ہوتا ہے لیکن وہ علم نہیں ہوتا۔ مذکورہ تمثیل میں جن لوگوں کا ذکر کیا گیا ہے وہ اپنی ساری زندگی غار کی ایک دیوار سے لگے اور زنجیروں میں جکڑے ہوتے ہیں اور ایک خالی دیوار کی طرف منہ کر کے بیٹھے رہتے ہیں۔ جو اپنے پیچھے سے گزرنے والی چیزوں کے سائے دیوار پر دیکھتے ہیں اور پھر اِس سائے کو نام دیتے ہیں۔ سائے کبھی بھی حقیقی دنیا کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ سائے حقیقت کے ایک ایسے حصے (ٹکڑے) کی نمائندگی کرتے ہیں جسے ہم عام طور پر اپنے حواس کے ذریعے محسوس کرتے ہیں۔ یہ تو ہوئی قدیم بات اور اب عصر حاضر کا جائزہ لیتے ہیں جس سے متعلق ایک جاپانی مصنف چوکوڈو شوجن نے کہا ہے کہ ”جدید معاشرہ وجودی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ لوگ ہر جگہ‘ ہر موقع پر‘ فکر کے اِس بحران کے بارے میں بات کرتے ہیں اور چیختے چلاتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں سمجھتے کہ وہ کس شے کے بارے میں بات کر رہے ہیں اور کس چیز کے لئے رو رہے ہیں۔“ درحقیقت بغیر سمجھے بولنا اور چیخنا بالخصوص سمجھنے کی خواہش کے بغیر‘ بذات ِخود سوچ کے بحران کی خصوصیت ہے۔ فکر کے بحران میں جس چیز کا اظہار کیا جاتا ہے وہ نظریاتی شعور کا فقدان ہے اور درحقیقت اِس کا تعلق ’فکری غربت‘ سے ہے۔ جس کا شکار لوگوں کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ وہ چیزوں کو اُن کے جواہر کی وضاحت سے سمجھیں کریں اور سوچ کو فروغ دیں بلکہ اس کی بجائے‘ اِن کا مقصد برعکس ہوتا ہے اور سوچ کو مزید غریب‘ قید اور خالی کرتے رہتے ہیں۔ اس طرز عمل نے سوچ کو ترقی کرنے نہیں دیا ۔مشہور کہاوت ہے کہ جب کوئی انسان کسی کام کو اپنی سوچ کے مطابق کر رہا ہوتا ہے تو وہ اپنے انجام سے بے خبر ہوتا ہے کیونکہ وہ سچائی کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے اندازوں سے حاصل کئے ہوئے ’نام نہاد علم‘ کی بنیاد پر فیصلہ کر رہا ہوتا ہے۔ جبکہ سوچ سے سچائی اور تلاش کا سفر شروع ہوتا ہے۔ اِسی سے متعلق افلاطون نے ’غار میں قید انسانوں کا فلسفیانہ تصور پیش کیا۔ افلاطون نے ایسے قیدیوں میں سے ایک قیدی کے فرار (آزاد) ہونے اور غار سے باہر قدم رکھنے کی جرا¿ت کا ذکر کیا۔ اُس نے سورج کو دیکھا جو چمک رہا تھا۔ اُس نے روشنی میں اپنے اردگرد مختلف قسم کی اشیا کو دیکھا۔ سب سے پہلے‘ یہ شخص چمک سے حیران تھا اور اِس کے لئے نئی حقیقت کے ساتھ ’ایڈجسٹ‘ کرنا مشکل ہوتا ہے پھر وہ آہستہ آہستہ دنیا کی حقیقی فطرت کو دیکھتا ہے اور محسوس کرتا ہے کہ غار میں سائے محض وہم تھے جن کا حتمی حقیقت سے تعلق نہیں تھا۔ انسانی بچہ آنکھیں کھولنے کے بعد اپنے ارد گرد کی دنیا کو اِسی حیرت سے دیکھتا ہے جیسا کہ افلاطون کی تمثیل (غار) والا دیکھتا ہے۔ یہ بچہ جب بڑا ہوتا ہے تو اِس کے ذہن میں سینکڑوں سوالات اُٹھتے ہیں ۔ اِس سے سوچ اور سوالات جنم لیتے ہیں اور جب سوالات کا جواب نہیں ملتا تو وہ اپنے جوابات خود تیار کرنا شروع کر دیتا ہے لیکن سوالات کا سلسلہ ختم نہیں ہوتے! انسان ساری زندگی سوالات کی تلاش میں رہتا ہے۔ آج کی تاریخ میں بھی سوالات اٹھتے ہیں اور انسانی عقل جواب طلب کر رہی ہے۔ پاکستان کے 76 سال کا جائزہ لیا جائے تویہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ آج کے پاکستان میں لوگوں کی تعداد کم اور سوالات کی تعداد زیادہ ہے کیونکہ جوابات نہیں مل رہے! مہنگائی کیوں ہے؟ بجلی و گیس کا بحران کیوں ختم نہیں ہو رہا؟ سرکاری اداروں کا مسلسل خسارہ اور آمدنی سے زیادہ حکومتی اخراجات کیوں ہیں؟ ایک طرف غربت اور دوسری طرف مراعات کیوں ہیں؟ یہ سب وہ سوالات جو ہمیںق آگے بڑھنے نہیں دے رہے ۔ کیا سوالات سے بچنا ممکن ہے اور سوالات سے بچ کر حقیقت (سچائی) کی منزل تک پہنچا جا سکتا ہے اور اِس سفر میں کوئی قوم کہاں تک جا سکتی ہے؟