دنیا خاموش انقلاب کی طرف بڑھ رہی ہے۔ یہ خاموش انقلاب ٹیکنالوجی کو فیصلہ سازی کی صلاحیت سے لیس کرنا ہے جسے مصنوعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹلی جنس AI) کہا جاتا ہے۔ لائق توجہ بات یہ ہے کہ مصنوعی ذہانت بھی ذہانت ہی کی ایک قسم ہے جو ذہانت سے تخلیق ہوئی اور ذہانت ہی سے ارتقائی مراحل طے کر رہی ہے۔ ماضی میں مشینوں کے انسانوں کی طرح فیصلہ کرنے کی صلاحیت کو ایک خیال اور تصور (سائنس فکشن) سمجھا جاتا تھا لیکن اب یہ خیال حقیقت کا روپ دھار چکا ہے اور مختلف شعبوں میں مصنوعی ذہانت کا استعمال ہونے لگا ہے جس کا سب سے عمومی استعمال موبائل فونز کی مختلف ایپلی کیشنز ہیں اور اِس جدت کے پیچھے ایک ’محرک قوت‘ اُبھرکر سامنے آئی ہے۔ ٹیکنالوجی کے شعبے میں کام کرنے والی صنعتیں (ٹیک کمپنی) مصنوعی ذہانت کا زیادہ استعمال کر رہی ہیں تاہم پاکستان کے نکتہ¿ نظر اور ضرورت کے مطابق اِس کا مفید ترین تیز زرعی شعبے میں ہوگا جس سے غذائی خودکفالت کا ہدف حاصل کرنے میں مدد ملے گی۔ وقت ہے کہ پاکستان کے زرعی و دیگر شعبوں کے لئے مصنوعی ذہانت اپنے وسائل سے تخلیق کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ حکومت اِس شعبے میں تعلیم و تحقیق کی سرپرستی کرے اور مصنوعی ذہانت کے استعمال سے پاکستان کا مستقبل محفوظ بنانے والوں کو ’قومی اعزازت سے نواز جائے۔‘مصنوعی ذہانت سے وہ سب کچھ ممکن ہے جو عمومی طور طریقوں اور روایتی کام کاج کے ذریعے ممکن نہیں۔ مالیاتی ادارے دھوکہ دہی کا سراغ لگانے‘ خسارے یا خطرات کا پیشگی درست اندازہ لگانے اور صارفین کی خدمت (کسٹمر سروسز) میں بہتری کے لئے مصنوعی ذہانت بروئے کار لا رہے ہیں جو کہ خوش آئند ہے۔ علاج اور صحت کی بھال یا بیماریوں کی تشخیص کے شعبوں میں ’مصنوعی ذہانت‘ سے چلنے والے ’امیج ریکوگنیشن ٹولز‘ سرطان (کینسر) و دیگر بیماریوں کا اُن کے ابتدائی مراحل (اسٹیجز) میں پتہ لگانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ توجہ طلب ہے کہ طب کے شعبے میں اِس طرح سے ابتدائی تشخیص کی وجہ سے قیمتی انسانی زندگیاں بچانے میں مدد مل رہی ہے اور یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ مصنوعی ذہانت کے استعمال کے نہ صرف علاج میں بہتری آئی ہے بلکہ نئی ادویات کی دریافت میں بھی انقلاب برپا ہے۔ مینوفیکچررز کی کوشش ہے کہ وہ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے روبوٹس کی صلاحیتوں سے فائدہ اُٹھائیں بالخصوص جو ویلڈنگ اور اسمبلی جیسے پیچیدہ کاموں کو خودکار طریقے سے سرانجام دیتے ہیں۔ مزید برآں‘ اِسی کی مدد سے سپلائی چین مینجمنٹ بھی زیادہ مو¿ثر ہو سکتی ہے۔ مصنوعی ذہانت کی سب سے خاص بات یہ ہے کہ اِس سے کسی بھی صنعت کے پیداواری اخراجات کم ہو جاتے ہیں جبکہ تیار ہونے والی اشیا کی ترسیل میں بہتری لائی جا سکتی ہے۔ ریٹیل کی متحرک دنیا میں‘ مصنوعی ذہانت نے صارفین کو ہدف بنانے میں انقلاب برپا کیا ہے۔ عام تشہیری مہمات کے وہ دن گزر گئے جب اندھی تشہیری مہمات سے بہت کم فائدہ ہوتا تھا جبکہ مصنوعی ذہانت کسی بھی خاص قسم کی مصنوعات کی معلومات اُس کے متعلقہ و ممکنہ صارفین تک ہی پہنچاتی ہے اور اِس سے وسائل کی بچت ممکن ہوتی ہے اور یوں ہر صارف یا ہر گاہک کو یہ بھی محسوس ہوتا ہے کہ اُسے خاص اہمیت دی گئی ہے۔ پاکستان میں فوری ترسیل کے شعبے کے بدلتے ہوئے منظرنامے میں مصنوعی ذہانت ’انقلابی قوت‘ کے طور پر دیکھی جا رہی ہے جس نے تیز رفتار اور مو¿ثر سروس کے تصور کو بے مثال بلندیوں تک پہنچایا ہے۔ اس شعبے میں ہونے والی پیش رفت ہر لحاظ سے حیرت انگیز ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے الگورتھم کی مدد سے ڈلیوری آپریشنز نے وقت اور فاصلے کی راہ میں حائل مشکلات کو پار کر لیا گیا ہے۔ اس تکنیکی عجائب نے پیکیجز کو وصول کرنے کے طریقے میں بھی انقلاب برپا کر رکھا ہے جس سے صارفین کی توقعات پوری ہو رہی ہیں اور یہ ایک تبدیل شدہ منظرنامہ ہے۔ اشیاءکی ترسیل ہو یا لاجسٹکس کمپنیوں کی جانب سے مصنوعات کی نقل و حمل دونوں شعبوں میں مصنوعی ذہانت جادوئی لمس ہے۔ مصنوعی ذہانت کے الگورتھم کے ذریعے ترسیل (شپمنٹ) کے مراحل کی نگرانی (ٹریکنگ اور ٹریسنگ) مختلف و مو¿ثر انداز سے ممکن ہو جاتی ہے جس میں تاخیر کا عنصر بھی کم رہتا ہے اور اِس سے آپریشنز کو ہموار یقینی بنانے میں مدد ملتی ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے ڈرونز نے جغرافیائی رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے دنیا بھر کے دور دراز علاقوں میں پیکجز کی فراہمی شروع کر رکھی ہے جس کی وجہ سے نئی جغرافیائی سرحدیں تشکیل پا رہی ہے اور یہ صورتحال کا نہایت ہی انقلابی پہلو ہے۔ اگرچہ مذکورہ بالا صنعتیں پاکستان میں مصنوعی ذہانت کی رسائی‘ اِس کی وسعت و صلاحیت کی عکاسی کرتی ہیں لیکن اثر و رسوخ کے مواقع زیادہ ہیں‘ دراز ہیں اور پھیلے ہوئے ہیں۔ تعلیمی شعبے میں بھی مصنوعی ذہانت کے کرشمے لائق دید ہیں جہاں روایتی کلاس رومز کے تصور کو تبدیل کر کے رکھ دیا گیا ہے اور اب طلبہ اپنی مرضی و سہولت کے مطابق سیکھنے کے تجربات‘ ریئل ٹائم فیڈ بیک اور خودکار گریڈنگ کے ذریعے اُن ضمنی موضوعات اور علوم کی گہرائیوں میں بھی جھانک رہے ہیں جو اِس سے قبل ممکن نہیں تھا۔ زراعت میں مصنوعی ذہانت کسانوں کو فصلوں کی پیداوار بہتر بنانے‘ بیماریوں کی پیشگوئی اور آبی وسائل کے مو¿ثر استعمال کے قابل بناتی ہے۔ میڈیا اور انٹرٹینمنٹ بھی مصنوعی ذہانت کی وجہ سے انقلابی دور سے گزر رہے ہیں‘ مصنوعی ذہانت میڈیا کے لئے مواد کی تخلیق کے بنیادی شعبوں اور مراحل جیسا کہ آڈیو‘ ویڈیو کے معیار کو بہتر بنانے میں حیرت انگیز خدمت سرانجام دے رہی ہے۔ مصنوعی ذہانت کے انقلاب کے حوالے سے پاکستان میں سرکاری ادارے (پبلک سیکٹر) بھی کچھ نہ کچھ فائدہ اُٹھانے والوں میں شامل ہے تاہم اِس فائدے کو وسعت دینے کی ضرورت ہے۔ مصنوعی ذہانت سے چلنے والے نظام عوامی خدمات کی فراہمی‘ جرائم کی روک تھام اور آفات کی صورت امدادی سرگرمیوں‘ بحالی کے کام اور نقصانات کا اندازہ لگانے جیسے انتظامات میں مدد دے سکتا ہے جبکہ پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں کے نشانے پر ہے اور ایسی صورت میں زیادہ محفوظ اور زیادہ دانشمندانہ اقدام یہی ہوگا کہ مصنوعی ذہانت کے وسائل سے استفادہ کیا جائے اور اِسے بہ امر مجبوری نہیں بلکہ مصنوعی ذہانت سے ضرورت کے طور پر فائدہ اُٹھایا جائے۔