سانحہ بابڑہ‘75 برس بیت گئے

سانحہ بابڑہ کوآج75 برس پورے ہو گئے ہیں مگر زخم ابھی تک مندمل نہیں ہو سکے ہیں تلخ یاد یں ابھی تک تازہ ہیں قبروں کی مٹی آج بھی گیلی ہے بے چین روحیں چیخ چیخ کر دہائی دے رہی ہیں بہت سوں کو تو آج کا دن یاد بھی نہیں ہوگا جبکہ نوجوان نسل تو اس عظیم المیہ سے واقف تک نہیں 12 اگست 1948ء کو پاکستان کی تاریخ کا سب سے المناک سانحہ پیش آیا مگر آج میڈیا میں اس کا ذکر تک موجود نہیں اس حوالے سے گذشتہ 75 برس سے ایسی خاموشی طاری ہے کہ جیسے اس روز بہنے والا خون اس دھرتی کے باسیوں کا نہیں تھا تاریخ کبھی کسی کو معاف نہیں کرتی بابڑہ میں سینکڑوں بے گناہوں کا خون بہا نے والے قصہ پارینہ بن گئے اور 66 برس بعد یعنی 2014ءمیں اس سانحہ کی برسی سے محض 2 دن پہلے معمر ترین مسلم لیگی رہنما اور خان عبدالقیوم خان کے انتہائی قریبی ساتھی جسٹس (ر) میاں برہان الدین نے راقم کو ایک انٹرویومیں یہ اعتراف کیا تھاکہ سانحہ بابڑہ یقینا زیادتی تھی اور ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ فائرنگ کا حکم قیوم خان نے نہیں بلکہ اس وقت کے ڈپٹی کمشنر نے دیا تھا اور قیوم خان نے خود اس کو کہا تھا کہ تم نے زیادتی کر دی ہے تاہم اسے صرف اتنی سزا دی گئی کہ اس کا تبادلہ کر دیا گیا گویا اب تاریخ نے تیور بدلنے شروع کر دیئے ہیں اب حقائق کو مخفی نہیں رکھا جاسکتا شہداء کا خون رنگ لانے والا ہے قاتلوں کے چہرے اب سب کو دکھائی دیں گے کیونکہ قانون قدرت سب کچھ معاف کر سکتا لیکن بے گناہ کا خون معاف نہیں کر سکتا 1948ء میں آج ہی کے دن خدائی خدمت گاروں نے گذشتہ ایک سال سے جاری جبر و تشدد غیر قانونی گرفتاریوں باچا خان ، ڈاکٹر خان صاحب قاضی عطاء اللہ اور ان کے دیگر ساتھیوں کی طویل اسیری اور بالخصوص پبلک سکیورٹی آرڈی ننس کے نفاذ کے خلاف پر امن احتجاج کا فیصلہ کیا تھا اس آرڈی ننس کے تحت کسی کو بھی وجہ بتائے بغیر گرفتار اور لامحدود عرصہ تک بند رکھا جا سکتا تھا پروگرام یہ تھا کہ چارسدہ سے بابڑہ تک مارچ کیا جائے گا اور وہاں پہنچ کر پر امن سیاسی احتجاج کے ذر یعہ حکومت سے صرف اپنے ہتھکنڈے بند کرنے اور اسیروں کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا جائے گا لیکن ان کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اس وقت کی صوبائی حکومت ظلم کی آخری انتہا تک جانے کا فیصلہ کر چکی ہے چنانچہ سانحہ جلیا نوالہ باغ کی یاد تازہ کرنے کا پورا پورا اہتمام کر دیا گیا تھا صبح سے ہی پولیس کی بھاری نفری بکتر بند گاڑیوں سمیت تعینات تھی پر امن جلوس جیسے ہی بابڑہ پہنچا اچانک فائر کا حکم دے دیا گیا اور پھر بر صغیر کی تاریخ کی سب سے بڑی خون کی ہولی کھیلی گئی عینی شاہدین کے مطابق 45 منٹ تک اندھا دھند فائرنگ جاری رہی اس دوران جو لوگ امن کی بھیک مانگنے نکل آئے تھے ان کو بھی نشانہ بنایا گیا ظالم کی گولی نے عمر اور جنس کی پرواہ کئے بغیر موت کی وادی میں لوگوں کو دھکیلنے کا کھیل جاری رکھا پون گھنٹہ بعد جب فائرنگ تھمی، گرد و غبار چھٹنے لگا تو فوری طور پر 600 سے زائد شہادتوں کی تصدیق ہو گئی‘ زخمیوں کی تعداد 1500 تک بیان کی جاتی ہے بعض لوگوں کا دعویٰ ہے کہ بابڑہ میں حکومت کے ہاتھوں مرنے والوں کی اصل تعداد 1300 سے زائد تھی جاں بحق شدگان کی تعداد کم دکھانے کی غرض سے ڈھائی سے سو سے زائد لاشیں قریبی دریا میں بہا دی گئیں جن میں اکثر کا پھر کبھی پتہ چل نہ سکا اس طرح حکومت کی انتقامی کارروائیوں کے ڈر سے مرنے والے بہت سے سیاسی کارکنوں کے ورثاء نے خفیہ طریقے سے تدفین کر کے خود کو اس سانحہ سے لاتعلق کرنے کی شعوری کوشش کی یہ حقیقت ہے کہ سانحہ بابڑہ بانڈہ کے شہداءکی اصل تعداد نہ تو سامنے آسکی اور نہ ہی کبھی سامنے آسکے گی کیونکہ بہت سی لاشیں سرکار یا پھر جیسا کہ بتایا گیا کہ ورثاءنے غائب کر دی تھیں اس سانحہ کے بعد یہ خبریں پھیلائی گئیں کہ بابڑہ کے مقام پر بغاوت کا منصوبہ تھا مگر اس سوال کا جواب آج تک کوئی نہ دے سکا کہ اگر ہزاروں افراد بغاوت کے لئے جمع ہورہے تھے تو ان کے پاس اسلحہ کیوں نہیں تھا اور اگر اسلحہ تھا تو دفاع میں گولی کیوں نہیں چلائی اور اگر گولیاں بھی چلا ئی تھیں تو پھر پولیس اہلکاروں کے مارے جانے کی اطلاعات کیوں سامنے نہ آسکیں اس سانحہ کی ذمہ داری براہ راست اس وقت کے وزیر اعلیٰ خان عبد القیوم خان پر عائد کی گئی اور انہوں نے بھی اس سے انکار نہیں کیا بلکہ ایک مرتبہ تو انہوں نے کہا تھا کہ اگر مجھے پھر موقع ملا تو ایک اور بابڑہ کروں گا قیوم خان عجیب و غریب شخصیت کے حامل تھے 1937ء کے انتخابات میں کانگریس کے ٹکٹ پر صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے تھے تاہم باچا خان اور ڈاکٹر خان صاحب نے جب نظر انداز کیا تو ناراض ہوگئے بعد ازاں مسلم لیگ سے وابستہ ہو گئے جلد ہی ایک مقام بنالیا 23 اگست 1948ء کو جب وہ وزیر اعلیٰ بنا دیئے گئے تو ایک طرف اگر انہوں نے صوبہ اور بالخصوص پشاور میں ریکارڈ ترقیاتی کام کئے تو دوسری طرف اپنے سیاسی مخالفین پر زندگی حرام کر دی جس کی ایک بڑی مثال سانحہ بابڑہ ہے آج اس سانحہ کی برسی منائی جارہی ہے لیکن کہیں بھی کوئی بڑی اور اہم تقریب کا انعقاد نظر نہیں آرہا اخبارات کی حد تک اے این پی نے اس سانحہ کی یاد میں تقریب کے اہتمام کا اعلان کر رکھا ہے باقی ہر طرف خیر خیریت نظر آرہی ہے سانحہ بابڑہ در حقیقت اس ملک میں جمہوری آمریت کی یاد دلاتا ہے جب ایسے لوگ اقتدار حاصل کرتے ہیں کہ جن میں دوسروں کو برداشت کرنے کا مادہ نہیں ہوتا تو پھر بابڑہ جیسے سانحات رونما ہوتے ہیں اور جب کوئی قوم سانحات سے سبق نہیں سیکھتی تو پھر بابڑہ مختلف روپ میں سامنے آتا رہتا ہے کبھی 23 مارچ 1973ءکو لیاقت باغ راولپنڈی میں تو کبھی 12 مئی 2007ء کو کراچی میں اور کبھی سانحہ ماڈل ٹاو¿ن لاہور کی شکل میں قوموں کی غفلت شعاری اپنی جگہ‘ تاریخ مجرموں کو معاف نہیں کرتی ‘ بابڑہ میں ہونے والا قتل عام در حقیقت ہماری تاریخ کا ایک ایسا خونی باب ہے جس کی تلخ یادیں اس خطے کے باشندوں کو قیامت تک متاثر کرتی رہیں گی کس قدرستم ظریفی کا مقام ہے کہ چشم زدن میں سینکڑوں بے گناہوں کو خون میں نہلا دیا گیا مگر اس پر نہ تو کوئی انکوائری کمیشن بن سکا نہ ہی ذمہ داروں کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا سکا اس سلسلہ میں تو حیرت خود اے این پی پر ہوتی ہے 5 سالہ اقتدار کے باوجود اس نے سانحہ بابڑہ کی بند فائل نکالنے کی کوشش ہی نہ کی حالانکہ اس کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کے ٹرائل کو ری اوپن کرنے کے حوالہ سے باقاعدہ طور پر سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔