تحقیق و فیصلہ سازی : ٹوٹے رشتے

معاشی بحران‘ سیاسی عدم استحکام‘ جمہوری بحران‘ گرتے ہوا سماجی ڈھانچہ‘ کم تعلیمی معیار اور موسمیاتی تبدیلیوں جیسی آفات ’قومی چیلنجز‘ ہیں جن سے نمٹنے کےلئے تحقیق اور فیصلہ (پالیسی) سازی کے درمیان ٹوٹے ہوئے روابط بحال ہونے چاہیئں اور صرف اسی ایک صورت سے طے کیا جا سکتا ہے جبکہ ہمارے پاس قومی مسائل کا سائنسی حل تلاش کرنے کا قومی ایجنڈا ہو‘ جو بنیادی طور پر کوآرڈینیشن اور ٹیم ورک اور تحقیق پر مبنی اعداد و شمار کا نچوڑہوتا ہے‘ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی) یونیورسٹیوں میں ہونے والی تحقیقی سرگرمیوں کی سمت کا تعین کرنے کے لئے تحقیقی ایجنڈا تیار کرکے قومی فیصلہ سازوں اور محققین کے درمیان فاصلے کم کر سکتی ہے۔ اسے ’کیمپس ریسرچ کلچر‘ کا نام دیا جائے تو زیادہ مناسب اصطلاح اور اصلاحات ہوں گی جن کی کمی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے ’ایچ ای سی‘ کی نیشنل اکیڈمی آف ہائر ایجوکیشن کی جانب سے برٹش کونسل اور کووینٹری یونیورسٹی برطانیہ کے تعاون سے منعقدہ حالیہ مشاورتی ورکشاپ کے شرکا (محققین) نے اِس بات پر اتفاق کیا کہ پاکستان میں تحقیق کےلئے ادارہ جاتی فریم ورک کمزور ہے اور رجسٹریشن کے طریقہ¿ کار میں تاخیر اور مختلف انتظامی رکاوٹیں حائل ہیں جن کی وجہ سے تحقیق کرنےوالے طالب علموں کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے اور وہ تناو¿ کا شکار رہتے ہیں‘اِسی طرح ’بورڈ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز اینڈ ریسرچ‘ سے تحقیقی موضوعات کی منظوری حاصل کرنے میں ضرورت سے زیادہ وقت لگتا ہے‘اس کے علاو¿ہ طلبہ اور سپروائزر کے درمیان تعلق بھی وقت کے ساتھ مضبوط ہونے کی بجائے کمزور ہوتا محسوس ہو رہا ہے۔ مالی مسائل‘ ہم عصروں کا دباو¿‘ آمدورفت اور صحت کے مسائل بھی طالب علموں کے تناو¿ میں اضافے کا باعث ہیں۔ اس طرح تحقیقی سفر کے دوران کام کے تناو¿ اور معاشرتی دباو¿ جیسے مسائل سے نمٹنے کے لئے سپروائزر اور طلبہ کے درمیان اچھا ورکنگ ریلیشن شپ ضروری ہے۔ پی ایچ ڈی سطح کے تحقیقی منصوبوں کی کامیاب تکمیل کےلئے طلبہ کی مناسب نگرانی اور رہنمائی کےلئے خصوصی سہولیات کی کمی بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے‘مزید برآں کیمپس میں مو¿ثر ادارہ جاتی فریم ورک اور تحقیق پر مبنی ثقافت بہت سے ریسرچ اسکالرز کی کامیابی کےلئے ضروری ہے‘ تحقیقی منصوبوں کی تکمیل کےلئے‘ طلبہ کو اپنے پڑھنے لکھنے کے کام میں پوری توجہ سے وابستہ رہنا چاہئے اور تحقیقی تربیت کے ذریعہ انہیں اپنی صلاحیتوں کو بہتر بنانے کے مواقعوں سے بھرپور فائدہ اُٹھانا چاہئے۔ تحقیق کرنےوالے طلبہ کی اکثریت متعلقہ جامعات کے تحقیقی معیارات سے پوری طرح آگاہ نہیں ہوتی اِس سلسلے میں طلبہ کےلئے واضح تفہیم ہونی چاہئے‘ انہیں تحقیق کے میدان میں اپنے سے پہلے ہوئی تحقیق سے آگاہ رہنا چاہئے اور اگر ماضی میں کی گئی تحقیق سے طلبہ آگاہ ہوں گے تو اِس علم کی بنیاد پر کھڑی ہونے والی عمارت زیادہ بلند اور مضبوط ہو گی‘ طلبہ کو تحقیق کےلئے اُنہی مضامین کا انتخاب کرنا چاہئے جن کے بارے میں اُنہیں دلچسپی ہو اور جن کے بارے میں مزید جاننے کی اُن کے اندر لگن موجود ہو‘ یہی لگن اُن کے اندر جوش و خروش کو جنم دے گی‘اسکے علاو¿ہ تحقیق کا آغاز کرنے سے قبل مالی ضروریات کا بندوبست بھی اچھے سے کر لینا چاہئے تاکہ وہ پڑھائی پر توجہ مرکوز کر سکیں۔مضبوط ادارہ جاتی فریم ورک کی عدم موجودگی تحقیق کے دلدادہ طلبہ میں حوصلہ شکنی کا سبب بنتی ہے اور تحقیقی منصوبے کی تکمیل کے لئے ضروری مہارتوں کو فروغ دینے میں بھی ناکام رہتی ہے‘پاکستان میں چار سالہ پی ایچ ڈی کے سفر میں پہلا سال کورس ورک پر مبنی ہوتا ہے جو ماسٹرز یا ایم فل کی سطح پر پہلے سے معلوم موضوعات کو دہرانے کی مشق ہوتی ہے اس روایتیطریقے کی بجائے اگر طلبہ کو نئے اور مشکل موضوعات کے بارے میں سوچنے اور تحقیق کی تربیت دی جائے تو وہ خود کو تنقید‘ معروضیت اور دیگر سائنسی اصولوں سے آشنا کر سکیں گے جو آج کی دنیا میں تحقیق کے بنیادی عناصر (اجزا¿) ہیں‘تحقیقی ڈگری کے پہلے سال کے دوران‘ تحقیق کا آغاز تحقیق سے نہیں بلکہ تعلیم سے ہوتا ہے اور لکھنے کی تکنیک‘ تحقیقی مہارت‘ تحقیقی اخلاقیات‘ مواصلات اور اپنے وقت کی بہترین تقسیم (نظم و ضبط) جیسی مہارتیں سیکھنی سکھانے پر توجہ مرکوز ہونی چاہئیں‘یہ تربیتی طریقے (ماڈیول) طلبہ کو اپنا علم و مہارت ختم کرنے کے قابل بنائیں گے اور وہ مستند و قابل اعتماد اعداد و شمار جمع کرنے میں ان کا اطلاق کرنے کے لئے تیار رہیں گے تاکہ ریسرچ کمیونٹی اور وسیع تر معاشرے کے فائدے جیسے نئے اہداف حاصل کئے جا سکیں‘ موجودہ ادارہ جاتی فریم ورک اور نصاب کے تحت ٹائم لائن پر سختی سے عمل نہیں ہو رہا جبکہ اِس کی کمی بھی محسوس کی جا رہی ہے‘پاکستان میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے میں دیگر ممالک کے مقابلے میں دوگنا وقت لگتا ہے۔ ٹائم ٹیبل پر سختی سے عمل نہ کرنے کی وجہ سے تحقیق میں مختلف اقدامات کا ملاپ بے ترتیبی اور حقائق کو بیان کرنے کے غیر سائنسی طریقے پر مبنی ہے۔ ہفتہ وار تحقیق کے طریقہ کار اور احتیاط سے کئے گئے تحقیقی تجزیے کی کمی کی وجہ سے ریسرچ اسکالرز علم کے موجودہ (عصری) معیار کو سمجھنے سے قاصر ہیں۔ اس طرح‘ تحقیقی منصوبے کے آغاز میں طلبہ کو تحقیقی سرگرمیوں میں مشغول کرنے کے لئے متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کی طرف سے تحقیقی فریم ورک اور مناسب ٹائم لائن کا جائزہ لینا چاہئے۔ دوسرے اور تیسرے سال کے دوران اسکالرز کو اپنے تین تحقیقی سیمینارز کے دوران متعلقہ محققین سے آرا¿ حاصل کرنی چاہئیں تاکہ تحقیق کے معیار کو اِن تعمیری آرا¿ کی روشنی میں بہتر بنایا جا سکے۔ پاکستان بھر کی یونیورسٹیوں کی انتظامیہ کو ڈاکٹریٹ کی ڈگریوں کے آخری سال میں شفاف اور مو¿ثر تھیسز کی تشخیص کے عمل کےلئے غیر ملکی یونیورسٹیوں کےساتھ روابط قائم کرنے چاہیئں تاکہ تحقیق کا معیار بہتر بنایا جا سکے جو وقت کی ضرورت ہے۔