بھارت کی جانب سے چاول کی برآمد پر پابندی عائد کرنے کے بعد پاکستان سے چاول کی برآمدات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ توجہ طلب ہے کہ بھارت نے مقامی طور پر چاول کی قیمتوں کو مستحکم رکھنے کے لئے چاول کی برآمدات پر پابندی عائد کی ہے تاکہ اندرون ملک چاول کی قلت پیدا نہ ہو جس کی وجہ سے اِس کی قیمت بڑھ جائے گی۔ اِس بھارتی حکمت عملی کا فائدہ پاکستان کو ہو رہا ہے اور اگر اِس موقع سے یہ سوچ کر فائدہ اُٹھایا جائے کہ مستقبل میں جب بھارت دوبارہ چاول کی برآمدات کا آغاز کرے گا تو پاکستان سے چاول کا معیار اور لین دین اِس قدر معیاری ہو کہ عالمی منڈیاں بھارت پر پاکستان کو ترجیح دیں لہٰذا اِس وقتی موقع کو وقتی یعنی قلیل فائدے کے طور پر نہیں دیکھا جانا چاہئے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان سے چاول کی برآمدات بڑھ رہی ہیں تو اِس کا یہ مطلب ہرگز نہیں چاول کی مقامی ضرورت کا خیال نہ کیا جائے اور جس اندیشے کے تحت بھارت نے اپنے چاول کی برآمدات روک لی ہیں پاکستان اپنی مقامی ضرورت کا خیال کئے بغیر اجناس کے ذخیرے خالی کر بیٹھے اور پھر ملکی ضرورت کے لئے مہنگے داموں چاول درآمد کرنا پڑے۔ اِس قسم کی صورتحال ماضی میں کئی مرتبہ دیکھی جا چکی ہے کہ قومی فیصلہ سازوں کو بتایا گیا کہ پاکستان میں چینی مقامی ضرورت سے زیادہ ہے لہٰذا یہ چینی برآمد کر دی جائے۔ حکومت نے چینی برآمد کرنے کی اجازت دیدی لیکن بعد میں معلوم ہوا کہ جو اعدادوشمار حکومت کو پیش کئے گئے تھے وہ غلط تھے اور چینی کی قلت پیدا ہونے سے ایک تو اِس کی فی کلوگرام قیمت میں اضافہ ہوا اور دوسرا حکومت کو مہنگے داموں چینی درآمد کر کے سستے داموں فروخت کرنا پڑی۔ شوگر ملز مالکان نے اربوں ڈالر کمائے جبکہ پاکستان کے قومی خزانے سے اربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود بھی چینی کی قیمتوں میں اضافے کو روکا نہیں جا سکا۔ چاول کی تیزی سے برآمدات میں اضافے کے اثرات نظر آنا شروع ہو چکے ہیں اور مارکیٹ میں چاول کی دستیابی آہستہ آہستہ کم ہو رہی ہے۔ اگر گزشتہ ایک ہفتے کی بات کی جائے تو پشاور کی مارکیٹ میں چاول کی قیمت میں پچیس سے تیس فیصد اضافہ ہو چکا ہے! چند روز میں ہوا یہ اضافہ کسی بھی صورت عام صارف کے لئے قابل برداشت نہیں کیونکہ پہلے ہی مہنگائی اور معاشی عدم استحکام کی وجہ سے متوسط و غریب طبقات پر مشتمل ملک کی ساٹھ فیصد سے زائد آبادی ’غذائی عدم تحفظ‘ کا شکار ہے! اور یہ بات اپنی جگہ قابل مذمت ہے کہ چاول کی زیادہ برآمدات کی وجہ سے ذخیرہ اندوزوں اور سٹے بازوں نے بھی فائدہ اُٹھانا شروع کر دیا ہے کیونکہ وہ جانتے ہیں آئندہ چند ہفتوں میں چاول ناپید ہو جائے گا اور اِس کی مانگ میں اضافہ اور دستیابی میں کمی کا فائدہ قیمتوں میں سو فیصد سے زائد اضافے کی صورت کر کے وہ راتوں رات اربوں روپے کما لیں گے۔ یہ منظرنامہ انتہائی مایوس کن ہے کہ اجناس کی زرعی پیداوار کرنے والوں سے زیادہ اِس کے فروخت کنندہ فائدہ اُٹھا رہے ہیں۔ رائس ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے کے مطابق پاکستان سے چاول کی برآمدات میں تقریباً 35 فیصد اضافہ ہوا ہے اور مجموعی طور پر رواں مالی سال 2023-24ءکے دوران پاکستان سے پچاس لاکھ ٹن چاول برآمد کیا جائے گا جس سے برآمدکنندگان کو 3 ارب ڈالر کی آمدنی متوقع ہے۔ ذہن نشین رہے کہ گزشتہ مالی سال 2022-23ءکے دوران پاکستان سے مجموعی طور پر ’3.72 ملین ٹن‘ چاول برآمد ہوا تھا جس سے 2.15 ارب ڈالر آمدنی حاصل ہوئی تھی۔ پاکستان میں زرعی شعبے کو اگر خاطرخواہ توجہ دی جائے تو صرف چاول کی فصل ملک کو پانچ ارب ڈالر سالانہ کا زرمبادلہ دے سکتی ہے۔ گزشتہ برس سیلاب کی وجہ سے چاول کی فصل کو نقصان ہوا تھا اِس کے باوجود بھی قریب چالیس لاکھ ٹن برآمد کیا گیا تو اگر چاول کی فصل نقد آور برآمدی جنس کے طور پر لگائی جائے تو صرف چاول کی برآمد ہی سے پاکستان کے ذمے واجب الادا¿ قرضوں کی واپسی ممکن ہے‘اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے مطابق عالمی منڈی سے بھارت کی چاول برآمدات رکنے سے برآمدی منڈیوں میں چاول کی قیمت بارہ سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے۔ فوڈ اینڈ ایگریکلچر آرگنائزیشن (ایف اے او) کا آل رائس پرائس انڈیکس‘ جو اہم برآمد کنندگان ممالک میں قیمتوں پر نظر رکھنے کا پیمانہ ہے کے مطابق جولائی میں چاول کی قیمت اوسطا 129.7پوائنٹس کا اضافہ ہوا جبکہ گزشتہ ماہ یہ قیمت 126.2 پوائنٹس تھی۔ بھارت کی طرف سے چاول نہ ملنے کے بعد روس نے پاکستان کا رخ کیا ہے اور اِس نے مزید پندرہ پاکستانی کمپنیوں کو چاول برآمد کرنے کی رجسٹریشن جاری کی ہے جبکہ بارہ پاکستانی کمپنیوں نے روس کو چاول برآمد کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے درخواستیں جمع کروا رکھی ہیں۔ چاول کی برآمد سے پاکستان کو اضافی زرمبادلہ تو مل رہا ہے لیکن اِس کی بھاری قیمت ایک عام صارف کو ادا کرنا پڑے گی اور اندیشہ ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں پاکستان کی مقامی مارکیٹ میں چاول کی دستیابی کم ہو جائے گی جس سے قیمتوں میں اضافہ ہوگا۔ دوسری طرف میکسیکو نے بھی پاکستانی چاول پر عائد پابندی ختم کرنے کا اعلان کیا ہے جس سے ایک اور منڈی کھل گئی ہے۔ پیداوار کے لحاظ سے پاکستان کو رواں سال چاول کی بھرپور فصل کی توقع ہے۔ ایک اندازے کے مطابق رواں سال 90 لاکھ ٹن کے لگ بھگ چاول کی فصل حاصل ہو گی جبکہ ملکی ضرورت اِس کا نصف ہے۔ حالیہ چند دنوں میں پاکستان کی مارکیٹ میں چاول کی قیمت میں اوسطاً 200 فیصد کا اضافہ ہو چکا ہے اور یہ ساڑھے تین سو روپے فی کلوگرام تک پہنچ چکی ہے جبکہ تین سال قبل یہی چاول ایک سو روپے فی کلوگرام میں دستیاب ہوا کرتا تھا۔ قیمتوں میں اس اضافے کو کئی عوامل ہیں جن میں سے ایک کورونا وبا اور دوسرا گزشتہ برس کا سیلاب تھا اور اِن دونوں منفی محرکات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اصولاً پاکستان کو بھی بھارت کی طرح چاول کی برآمد پر پابندی عائد کرنی چاہئے تھے لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ فی الوقت اعلیٰ معیار کے باسمتی چاول کی قیمت پانچ سو روپے فی کلوگرام تک پہنچ گئی ہے جو تین سال قبل ڈھائی سو سے تین سو روپے فی کلو گرام تھا۔ اسی طرح باسمتی کے علاوہ دیگر چاول کی قسم کی قیمت ساڑھے تین سے چار سو روپے فی کلو گرام ہو چکی ہے جو ایک سو بیس سے ڈیڑھ سو روپے فی کلوگرام ہوا کرتی تھی! پاکستان سے چاول کی بے دریغ برآمد‘ مارکیٹ میں چاول کی قیمتوں میں اضافہ اور مقامی مارکیٹ کے پیچیدہ منظر نامے سے عیاں ہے کہ آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں چاول کی دستیابی متاثر ہو گی۔