تیز ترین زندگی اور بدلے طرز بودوباش نے ہر کسی کو دباﺅ کا شکار کیا ہے ایک دوڑ ہے جس میں ہر کسی کی کوشش ہے کہ وہ دوسرے کو پیچھے چھوڑ جائے۔تاہم اس مشکل اور تھکا دینے والی دوڑ کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ بے جا سوچنے اور ضرورت سے زیادہ پریشان کن خیالات نے ہر دوسرے فرد کو ڈپریشن کا شکار بنا دیا ہے ۔ یہ کیفیات بے چینی اور تشویش میں بھی اضافے کا باعث بنتی ہیں۔ضرروت سے زیادہ پریشان ہونا اور سوچنا دراصل انسان کو ایک تشویش ناک کیفیت میں مبتلا کر دیتے ہیں۔ ان کیفیات کے باعث سب سے پہلے انسان بے آرامی کا شکار ہوتا اور پھر وہ ذہنی تکلیف میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ سوچ و بچار اچھی بات ہے اور کسی بھی مسئلے میں سوچ و بچار اس کو سلجھانے کا ذریعہ ہے ۔ تاہم حد سے زیادہ سوچ و بچار ایک بجائے خود ایک مسئلہ ہے ۔اس لئے تو ماہرین نفسیات کے مطابق زیادہ سوچ و بچاراور پریشان کن خیالات دراصل سوچ کا ایک ایسا سلسلہ ہوتا ہے، جس میں منفی خیالات حاوی ہوتے ہیں اور انسان کسی معاملے کے صرف برے پہلوں پر ہی بے جا غور و فکر شروع کر دیتا ہے حالانکہ ابھی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہوتا۔اگر انسان اپنی سوچوں کو قابو میں نہیں کرتا تو وہ ذہنی مریض بھی بن سکتا ہے۔ سوچوں اور خیالات پر کنٹرول دراصل پرسکون زندگی کا ایک اہم کلیہ قرار دیا جاتا ہے۔ضرورت سے زیادہ سوچنے والے افراد دراصل وہموں کے غلبے میں آ جاتے ہیں۔ کوئی چھوٹی سی بات یا سوچ انہیں انتہائی حدود پر لے جا سکتی ہے۔ کسی واقعے کو اگر خیالی طور پر طول دیتے ہوئے صرف تصورات میں اس سے نتائج اخذ کرنا شروع کر دیا جائے تو انسان کی معمول کی زندگی تباہ ہو سکتی ہے۔ ہمارے اطراف یا ہم پر براہ راست اثر انداز ہونے والے واقعات ہمیشہ ویسے رونما نہیں ہوتے، جیسا کہ ہم چاہتے ہیں یا کبھی کبھار ہمارا تخیل نتائج اخذ کر لیتا ہے۔ غیر متوقع حالات پیش آنے پر کمزور قوت ارادی رکھنے والے افرادیا بے جا اور زیادہ سوچنے والے افراد پر ایسی کیفیت طاری ہو جاتی ہے کہ ان کا حقیقی دنیا سے رابطہ ہی منقطع ہو جاتا ہے۔بنیادی طور پر ہر انسان اپنی زندگی میں ممکنہ طور پر رونما ہونے والے امکانات کو ضرور سوچتا ہے۔ کچھ لوگ البتہ ان امکانات کوئی حقیقت سمجھ کر ایک خاص انداز میں ردعمل بھی ظاہر کرنے لگتے ہیں۔ وہ انہی امکانات میں ہی خود کو قید کر لیتے ہیں۔ وہ اپنے خیالات کی پٹری سے اتر کر واپس حقیقی دنیا میں لوٹنے میں ناکام ہو جاتے ہیں اوراس کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ حقیقی دنیا سے کٹ کر اپنے مسائل اور مشکلات کو بڑھا چڑھا کر اپنے اوپر طاری کردیتے ہیں۔ یعنی جس قدر وہ سوچتے ہیں تو حل نکالنے کی بجائے وہ مسئلے کو ہی بڑھا لیتے ہیں۔یہی پریشانی دراصل مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنے پر مجبور کرتی ہے جس پر منفی خیالات حاوی ہوتے ہیں اور برے نتائج ذہن کو جکڑ لیتے ہیں۔ ماہرین نفسیات کے مطابقمنفی خیالات سے چھٹکارا پانے کا ایک ا طریقہ یہ بھی ہے کہ یہ سوچا جائے کہ خیالات حقیقت نہیں ہوتے بلکہ یہ صرف امکانات ہی ہیں۔ ان ماہرین کے مطابق بے جا فکر اور پریشانی سے بچنے کا ایک طریقہ دھیان بٹانا بھی ہو سکتا ہے۔ اس طریقے میں کسی تجربے پر توجہ دی جاتی ہے نہ کہ اس سے جڑے امکانات پر۔ جیسا کہ کسی واقعے کے نتیجے پر کوئی واحد حتمی فیصلہ صادر کرنے سے پہلے سوچا چائے کہ نتیجہ مثبت بھی ہو سکتا ہے۔ سوچوں اور فکروں پر قابو پا کر لوگ حقیقی دنیا میں واپس لوٹ سکتے ہیں۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ انسان کو پریشان کن خیالات، بے جا سوچ و بچار اور بہت زیادہ سوچنے سے بچنا چاہئے یہ وہ راستہ ہے جس سے کوئی بھی شخص ایک پرسکون زندگی بسر کرنے کے قابل ہو سکتا ہے۔