صوبائی دارالحکومت میں مقیم افغان مہاجرین بالخصوص ’ہزارہ برادری‘ سے تعلق رکھنے والوں نے پشاور میں تعینات افغان قونصل جنرل اور افغان حکومت سے مطالبات کئے ہیں کہ 1: ہزارہ برادری کو سرکاری ملازمتوں سے بیدخل نہ کیا جائے۔ 2: ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والوں کو سرکاری ملازمتوں کے یکساں مواقع دیئے جائیں۔ 3: ہزارہ برادری سے روا رکھنے والا تعصب ختم کیا جائے۔ 4: فارسی (دری) زبان بولنے والوں کو بھی برابری کی بنیاد پر یکساں افغان شہری تصور کیا جائے۔ 5: ہزارہ برادری کو مذہبی و دیگر روایتی تہوار اور منانے اجازت دی جائے 6: اہم حکومتی عہدوں پر ماضی میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی ایک تعداد تعینات ہوتی تھی جنہیں گزشتہ دو برس کے دوران بتدریج ختم کردیا گیا ہے۔ ماضی میں افغان فوج کا سربراہ اور نائب صدر مملکت جیسے کلیدی عہدوں پر ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے تعینات ہوا کرتے تھے لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ 7: افغانستان میں طالبات پر تعلیم و گھر سے باہر روزگار پر عائد پابندیاں خواتین کے لئے مشکلات اور تشویش کا باعث بنی ہوئی ہیں۔ افغان حکومت سے گزارش ہے کہ وہ طالبات کی تعلیم کے حوالے سے اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرے۔ 8: افغان حکومت کی جانب سے ہزارہ برادری پر عرصہ¿ حیات تنگ کرنے کی وجہ سے مہاجرت کی زندگی اختیار کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ 9: افغانستان میں پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کے لئے بھاری رشوت ادا کی جاتی ہے اور پاکستانی ویزے کی قیمت امریکی ویزہ حاصل کرنے کی غیرسرکاری قیمت سے زیادہ ہے۔ ایک پاکستانی ویزہ ہزار سے پندرہ سو امریکی ڈالر کے عوض فروخت ہو رہا ہے۔ اِس پریشان کن صورتحال کا نوٹس پاکستان کی حکومت کو بھی لینا چاہئے۔10: پاکستان کا ویزا حاصل کرنے کے لئے تین سے چھ ماہ انتظار کرنا پڑتا ہے اور یہ انتظار اُن افغانوں کے لئے مشکلات و پریشانی کا باعث بنا ہوا ہے جو علاج کی غرض سے پشاور آنا چاہتے ہیں۔ 11: ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد مالی و آمدورفت کی مشکلات سے گزر کر جب پاکستان پہنچتے ہیں تو اُن کا پہلا پڑاو¿ (ترجیح) پشاور ہوتا ہے جہاں کے کئی علاقوں میں افغان مہاجرین بالخصوص ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے اکثریت میں آباد ہیں۔ 12: پاکستان میں مختصر مدت کے لئے عارضی سکونت اختیار کرنے والے ہزارہ برادری کے افراد کو غیرمعمولی مہنگائی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پشاور میں مکانات کا ماہانہ کرایہ تاریخ کی بلند ترین سطح کو چھو رہا ہے۔ اِس سلسلے میں غیرملکی امدادی تنظیموں (این جی اوز) کو چاہئے کہ وہ ماضی کی طرح موجودہ مشکل حالات میں بھی افغان مہاجرین کو اپنی معیشت و معاشرت کی بحالی کے لئے مدد فراہم کریں۔ 13: ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افغان مہاجرین کے بچوں کی اکثریت نجی سکولوں میں تعلیم حاصل کرتی ہے لیکن مہنگائی (معاشی مشکلات) کی وجہ سے ہزارہ برادری کے بچوں کے لئے پاکستان میں مقیم ہوتے ہوئے بھی تعلیم سے محروم رہنا پڑ رہا ہے۔ اِس سلسلے میں قومی و صوبائی سطح پر حکمت ِعملی وضع کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کے سرکاری سکولوں میں افغان مہاجرین کے بچوں کے لئے کوٹہ مختص کیا جائے۔ 14: افغان مہاجرین میں ہزارہ برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کھانے پینے کی اشیا فروخت کر کے یہ لوگ اپنا گزر بسر کر رہے ہیں اور اُمید رکھتے ہیں کہ پاکستان حکومت اُن کی ہر دن بڑھتی ہوئی مشکل کا حل کرے گی۔15: پاکستان سے علمائے کرام کا ایک نمائندہ وفد رواں ہفتے افغانستان جا رہا ہے جہاں وہ اعلیٰ سطح پر افغان حکومت سے مذاکرات کریں گے اور افغان قیادت کو اِس بات کے لئے قائل کیا جائے گا کہ کوئی بھی شخص یا دھڑا افغان سرزمین اور افغان وسائل کا کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہ کرے۔ خوش آئند ہے کہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان بات چیت کا سلسلہ پھر سے جوڑ دیا گیا ہے اور اِس سلسلے میں ڈاکٹر قبلہ ایاز (اسلامی نظریاتی کونسل) کا نہایت ہی اہم کردار ہے۔ اُمید ہے کہ علما کرام کا یہ وفد افغان حکومت کے ذہن میں موجود منفی تاثر کو زائل کرے گا اور دو برادر ہمسایہ ممالک ایک دوسرے کی آزادی و خوشحالی کا تحفظ کرنے میں اپنا اپنا کلیدی کردار ادا کریں گے۔