یوں تو گرمی کی لہر نے سب کو بے حال کر دیا ہے تاہم بچوں کی صحت کو اس سے شدید خطرت لاحق ہوتے ہیں۔حال ہی میںاقوام متحدہ نے جنوبی ایشیا میں تین چوتھائی بچوں کو لاحق خوفناک حد تک بلند درجہ حرارت کے خطرات سے خبردار کیا ہے۔ اس عالمی ادارے نے کہا ہے کہ اس کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے۔اقوام متحدہ کی جانب سے ایک انتباہی بیان میں کہا گیا ہے کہ اس وقت دنیا بھر میں سب سے بلند درجہ حرارت جنوبی ایشیا کا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی کے اثرات شدید ہو رہے ہیں جس کے نتیجے میں غیر معمولی حد تک بڑھے ہوئے درجہ حرارت سب سے زیادہ بچوں کو متاثر کر رہا ہے۔ بچوں کی بہبود کےلئے اقوام متحدہ کی ایجنسی یونیسیف نے کہا کہ جنوبی ایشیا میں تقریباً 460 ملین یا 76 فیصد بچے شدید گرمی کا شکار ہیں، جو عالمی سطح پر بچوں کی تعداد کا ایک تہائی
بنتی ہے۔یونیسیف کے جنوبی ایشیا کے ریجنل ڈائریکٹر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ عالمی سطح پر بلند درجہ حرارت سے متاثرہ انسانوں کے اعداد و شمار واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ جنوبی ایشیا میں لاکھوں بچوں کی زندگیوں اور صحت کو گرمی کی لہروں اور بلند درجہ حرارت سے شدید خطرات لاحق ہیں۔اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ افغانستان، بنگلہ دیش، بھارت، مالدیپ اور پاکستان میں بچے موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کے انتہائی زیادہ خطرات کا شکار ہیں۔ ایک اندازے کے مطابق ان ممالک میں ہر سال کم از کم 83 دن درجہ حرارت 35 ڈگری سینٹی گریڈ سے زیادہ رہتا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ بچے اتنے بلند درجہ حرارت کا اپنے جسم کو عادی نہیں بنا پاتے اور موسمیاتی تبدیلی کے ساتھ اپنے جسم کے درجہ حرارت کو ہم آہنگ بنانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ ماہرین صحت کے مطابقچھوٹے بچے گرمی کو برداشت نہیں کر سکتے۔ یہ بچے آنے والے سالوں میں زیادہ اور بار بار اور زیادہ شدید گرمی کی لہروں کا شکار رہیں گے، اس کا ایک حل تو یہ ہے کہ بچوں کو حتی الوسع گرمی کی شدت سے بچایا جائے اور جہاں تک ممکن ہو ان کو کھلی دھو پ سے دور رکھا جائے۔ یہاں ایک اور نکتہ جو قابل غور
ہے وہ یہ ہے کہ بد قسمتی سے معاشی طور پر کمزور طبقے کے بچے موسمیاتی تبدیلی کا زیادہ شکار ہوتے ہیں کیونکہ ان کے پاس اس قسم کی شدید گرمی سے بچنے کیلئے وسائل کی کمی ہوتی ہے ۔ 1800 کی دہائی کے اواخر کے مقابلے میں گلوبل وارمنگ کے سبب تقریباً 1.2 ڈگری سینٹی گریڈ کے اضافے نے جہاں انسانوں کوخاص طور سے بچوں کی صحت کو شدید متاثر کیا ہے وہاں گرمی کی لہریں مزید گرم اور طویل تر ہوئی ہیں اور طوفان اور سیلاب جیسی دیگر قدرتی آفات کے امکانات کو بھی غیر معمولی حد تک بڑھا دیا ہے۔سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ دنیا کو پہلے سے ہی ضرر رساں گیسوں کے اخراج کی وجہ سے گوناگوں مسائل کا سامنا ہے اور یہ کہ کاربن آلودگی کو اس دہائی میں بہت حد تک کم کیا جانا ضروری ہے بصورت دیگر مستقبل میں مزید خراب صورتحال کا سامنا کرنا پڑے گا۔