پہلا نکتہ: اُنیس سو پچانوے میں عالمی سطح پر انٹرنیٹ صارفین کی تعداد ایک کروڑ ساٹھ لاکھ (160ملین) تھی‘ یہ تعداد سال دوہزاربائیس کے اختتام پر 5 ارب 54 کروڑ صارفین سے تجاوز کر گئی تھی۔ دوسرا نکتہ: دنیا کا سب سے سستا انٹرنیٹ مشرق وسطیٰ میں 0.04 ڈالر فی گیگا بائٹ (جی بی) جبکہ قیمت کے لحاظ سے مہنگا ترین انٹرنیٹ براعظم جنوبی امریکہ کے ملک ’فالک آئی لینڈ ‘ میں 38.45 ڈالر فی ’جی بی‘ ہے۔ ایک ’جی بی‘ انٹرنیٹ جسے عرف عام میں ڈیٹا (data) بھی کہتے ہیں 1024 میگابائٹ (MBs) کے مساوی ہوتا ہے۔ سستا ترین انٹرنیٹ فراہم کرنے والے ممالک کی فہرست میں پاکستان 0.37 امریکی ڈالر (سینتیس سینٹس) فی ’جی بی‘ کے لحاظ سے 7ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان سے سستا انٹرنیٹ فراہم کرنے والے سرفہرست ممالک میں اٹلی (0.12 ڈالر فی جی بی)‘ بھارت (0.12 ڈالر فی جی بی)‘ فرانس (0.23 ڈالر فی جی بی)‘ یوراگوئے (0.27 ڈالر فی جی) اور بنگلہ دیش (0.32 ڈالر فی جی) شامل ہیں‘ تیسرا نکتہ: بنیادی بات یہ ہے کہ جس طرح کسی انسان کے لئے کھانا پینا اور سانس لینے کے لئے ہوا (آکسیجن) بنیادی ضروریات کا حصہ ہے بالکل اِسی طرح آج کے دور میں ٹیکنالوجی ہر شعبہ¿ زندگی کا احاطہ کئے ہوئے ہے ‘ دنیا میں انٹرنیٹ صرف سہولت یا آسائش کی فراہمی کا ذریعہ ہی نہیں رہا بلکہ یہ ’بنیادی ضرورت‘ بن چکا ہے‘ ایک عام صارف کےلئے تفریح سے لیکر تازہ ترین حالات کی جانکاری ‘ سطحی سے گہری معلومات تک کے حصول میں انٹرنیٹ مختلف وسائل (ٹیلی ویژن یا موبائل فون) کےلئے کلیدی اِہمیت رکھتا ہے جبکہ ایک طالب علم اور کاروباری شخصیت کےلئے ’انٹرنیٹ‘ کا مطلب خود کو منوانے کے اَن گنت مواقع ہیں یعنی انٹرنیٹ سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے وہ اپنی سوچ‘ تخلیقات‘ تجربات اور خدمات کا دائرہ وسیع سے وسیع تر کر سکتا ہے‘چوتھا نکتہ: انٹرنیٹ نے اَخبارات‘ جرائد اور کتابوں کے روایتی تصور کو ’سوشل میڈیا کہلانے والے ذرائع‘ کے استعمال سے ایک ایسی انقلابی شکل و صورت دی ہے کہ سماجی رابطہ کاری ممالک کی ترجمانی اور وہاں سیاسی و سماجی تبدیلیوں کا باعث بن رہا ہے‘ جو ایک الگ موضوع ہے۔انٹرنیٹ کا استعمال کسی صارف کے تجربے‘ تعلیم و شعور‘ ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری اور دلچسپی جیسے محرکات کی وجہ سے محدود ہو سکتا ہے لیکن انٹرنیٹ ’لامحدود امکانات‘ کا نام ہے ایک ایسا آلہ جس کے ذریعے روزمرہ کے معمولات سے لیکر سماجی ترقی اور سیاسی سرگرمیوں کو سرانجام دینے کے علاو¿ہ کام کاج کو برق رفتاری کے ساتھ اپنے ہم عصروں اور ایک جیسے خیالات رکھنے والوں سے مربوط بھی کیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ایک ایسے ممالک ہیں جہاں انٹرنیٹ کا استعمال حکومت سازی کےلئے رائے دہی کے لئے ہو رہا ہے جبکہ حال ہی میں پاکستان کی پہلی ڈیجیٹل مردم شماری (یکم مارچ سے تیس مئی دوہزارتئیس کے درمیانی عرصے میں) مکمل ہوئی‘ جس میں اِنٹرنیٹ کا استعمال کرتے ہوئے چوبیس کروڑ سے زائد افراد کے کوائف نہ صرف اکٹھاکئے گئے بلکہ اِن کوائف کی جانچ پڑتال بھی کی گئی‘ یوں تین ماہ میں ’چوبیس کروڑ چودہ لاکھ بانوے ہزار نو سو سترہ‘ افراد کو نہ صرف شمار کیا گیا بلکہ اُن کی رہائشگاہوں‘ مادری زبان اور رہن سہن سے متعلق معلومات بھی جمع کر لی گئیں‘ جنہیں مدنظر رکھتے ہوئے قومی و صوبائی فیصلہ سازی کی جائے گی اور اِسی مردم شماری کی بنیاد پر عام انتخابات کی حلقہ بندیوں پر نظرثانی کرنے کا فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ ضمنی نکتہ ہے کہ پاکستان کی کل آبادی 41 کروڑ 14 لاکھ سے زیادہ شمار کی گئی ہے جن میں گزشتہ عام انتخابات کے رجسٹرڈ رائے دہندگان (ووٹرز) کی تعداد ’10 کروڑ 59 لاکھ 55 ہزار 409‘ تھی اور آئندہ عام انتخابات جن کی تاریخوں کا اعلان تاخیر یا بلاتاخیر ہونا باقی ہے کےلئے الیکشن کمیشن کی ڈیٹابیس میں 1 کروڑ 40 لاکھ سے زیادہ ووٹروں کا اضافہ ہو چکا ہے ‘نئے رجسٹرڈ ہونےوالے ووٹرز کسی بھی الیکشن کےلئے سب سے اہم ہوتے ہیں‘ ایک ایسے منظرنامے میں جبکہ پولنگ کی شرح پچاس فیصد کے لگ بھگ ہو جیسا کہ 2013ءکے عام انتخابات میں 53.90 فیصد اور 2018ءکے عام انتخابات میں پولنگ کی شرح 50.14فیصد رہی تو آئندہ عام انتخابات 2023ءیا 2024ءکےلئے شرح پولنگ بھی قریب اکیاون یا زیادہ سے زیادہ باون فیصد رہنے کی توقع ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے ووٹ کی پرچیاں 12 کروڑ سے زیادہ شائع کی جائیں گی لیکن چھ کروڑ یا اِس سے کچھ زیادہ لوگ کاغذ کی پرچی کے ذریعے اپنا ووٹ ڈالیں گے۔ ماحول دوستی کا تقاضا یہ ہے اور مالی وسائل کی بچت کےلئے دانشمندانہ اقدام یہی ہوگا کہ ووٹنگ کےلئے الیکٹرانک مشینوں اور انٹرنیٹ کے وسائل سے استفادہ کیا جائے جنہیں دھاندلی سے محفوظ رکھنے کے سوچ بچار اور مصنوعی ذہانت پر مبنی ایسے طریقے وضع کئے جا سکتے ہیں جن میں کاغذ کی پرچی پر دیئے گئے ’ووٹ‘ سے زیادہ عوام کی رائے محفوظ اور دھاندلی سے پاک شمار ہو سکتی ہے۔ سترہ اگست کے روز الیکشن کمیشن نے آئندہ عام اِنتخابات کی تیاریوں سے متعلق تاریخوں کا اعلان کیا ہے جن میں ’الیکٹرانک ووٹنگ‘ کا ذکر نہیں لیکن چونکہ ووٹروں کے تمام کوائف ڈیجٹیل اسلوب میں محفوظ ہیں اِس لئے ’الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کا استعمال آج سے زیادہ کبھی بھی اِس قدر قابل عمل اور خدشات کا شکار عوام کی اکثریت کےلئے قابل قبول نہیں ہوگا‘حکومت سازی سے فیصلہ سازی اور صحت و تعلیم کے شعبوں سے سیاحت تک‘ کرشماتی انٹرنیٹ سے استفادہ کرنے کےلئے ضروری ہے کہ پاکستان میں انٹرنیٹ تک رسائی کی موجودہ قیمت کم کی جائے اور اِسے کم سے کم بھارت یا بنگلہ دیش کی سطح پر لایا جائے جو کم قیمت انٹرنیٹ کے لحاظ سے عالمی سطح پر بالترتیب تیسرے اور چھٹے نمبر پر ہیں ‘ انٹرنیٹ سستا ہو یا مہنگا اِس بات کا فیصلہ عام آدمی کی قوت ِخرید کو مدنظر رکھ کر کیا جاتا ہے ‘پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ فیصلہ سازوں کو اِس جانب بھی متوجہ ہونا پڑے گا کہ اِنٹرنیٹ فراہم کرنےوالی موبائل فون کمپنیاںانواع و اقسام کے پیکجز کی صورت اپنے صارفین کےلئے مراعات کا اعلان کرتی ہیں لیکن اِن میں طلبہ کےلئے خصوصی اور تیز رفتار (4G) انٹرنیٹ کی پیشکشیں شامل نہیں ہیں‘اصولاً تعلیمی اداروں کی شناخت ’انٹرنیٹ صارفین‘ کے طور پر کرتے ہوئے ہر ادارے میں زیرتعلیم طلبہ کےلئے ’انٹرنیٹ پیکجز‘ کا اجرا¿ ہونا چاہئے۔ حکومت کی جانب سے طلبہ کو ’لیپ ٹاپ‘ تو فراہم کئے گئے ہیں لیکن وافر اور مستقل انٹرنیٹ کے بغیر طلبہ کےلئے محض مشینوں سے کھیلنا سودمند نہیں ہوگا بلکہ اُنہیں زیادہ سے زیادہ ’آن لائن‘ رکھنے کےلئے بھی سوچ بچار ہونی چاہئے۔ موبائل فون کے ذریعے گھنٹوں مفت کالز کرنے کی سہولت دینے والوں کو انٹرنیٹ کے لامحدود پیکجز بھی متعارف کرانے چاہیئں اور اِس سلسلے میں لیپ ٹاپ کی طرح طلبہ کو اُنکے تعلیمی دورانیے اُور بعدازاں ’آن لائن سٹارٹ اپس‘ کےلئے ’انٹرنیٹ پیکجز کی صورت مراعات‘ دینے سے پاکستان کے خود روزگار اور خود انحصاری کے منظرنامے میں نمایاں تبدیلی لائی جا سکتی ہے۔