تعلیم و تحقیق کے درمیان بڑھتے ہوئے فاصلے (خلیج) کا اندازہ اِس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ چوری ثابت نہ ہونے والے تحقیقی مقالے کی قیمت پچاس ہزار سے تین لاکھ روپے کے درمیان ہے جبکہ کسی تحقیقی مقالے کے مصنفین میں نام شامل کرنے کی بھی ایک خاص قیمت مقرر ہے اور یہ دھندا کھلے عام ہو رہا ہے۔ میٹرک اور ایف ایس سی کی پریکٹیکل کاپیاں بنوانے سے لیکر پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے کے لئے تحقیق کے مراحل اصلاح طلب ہیں کیونکہ اکثر طلبہ اور اساتذہ کو یہ بات بھی یاد نہیں رہتی کہ اُنہوں نے جو تحقیقی مقالہ لکھا تھا اُس میں کن کن ضمنی موضوعات کا احاطہ کیا گیا تھا اور کسی علمی نکتے کے حوالے سے اُن کے دلائل کیا تھے۔ اگر رازداری سے پوچھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ معاوضے کے عوض کوئی بھی شخص محقق بن سکتا ہے بس موضوع بتائیں اور شائع شدہ‘ جلد بندی کے ساتھ تیار مقالہ حاصل کریں! تحقیق کی اِس آسانی کے سبب راتوں رات محققین بننے والوں کی ایک بڑی تعداد میں طلبہ اور اساتذہ شامل ہیں! کیا یہ ممکن ہے کہ کوئی شخص ایک ہی ماہ میں آٹھ تحقیقی مضامین لکھ دے؟ اِس حیرت انگیز کارکردگی (کارنامے) کی بکھری مثالیں تحقیق و تدریس کے نظام اور تحقیق کی نگرانی کے معیار کو ظاہر کر رہی ہے‘ جن کا سنجیدگی سے نوٹس لیا جانا چاہئے۔شعبہ¿ تعلیم میں تحقیق چند ایک یا دو پروفیسروں یا طلبہ تک محدود نہیں رہی بلکہ یہ بہت سے تعلیمی اِداروں میں رائج ایک عمومی طریقہ¿ کار یعنی تدریسی ثقافت کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور بنیادی بات یہ ہے کہ درس و تدریس کے کسی بھی درجے اور کسی بھی مرحلے پر جب طلبہ کو ’تحقیق‘ کرنا سکھایا ہی نہیں جاتا تو اُن سے اِس بات کی توقع کیسے کی جاتی ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم کے مراحل میں تحقیقی سوچ سے کام لیں گے اور تعلیم کے بارے میں اُن کے رجحانات پر تحقیق غالب و راغب ہوگی۔ زیادہ تر تحقیقی مقالے لکھنے والے اُن بنیادی تکنیکی و فنی اصولوں (قواعد و ضوابط) سے بھی ناآشنا ہوتے ہیں جو مقالہ لکھنے سے قبل معلوم ہونے چاہیئں۔ ایک معلم نے نام ظاہر نہ کرنے کی درخواست پر دلچسپ واقعہ سنایا کہ ایک طالب علم نے اپنا تحقیقی مقالہ جمع کروایا تو اُس سے مقالے کی ’سافٹ کاپی‘ طلب کی گئی‘ جو فوری طور پر فراہم کر دی گئی اور اِس قدر عجلت میں فراہم کی گئی کہ اُس سے کی گئی چوری عیاں ہو گئی کیونکہ اگرچہ دستاویز میں نام تبدیل کر دیئے گئے تھے لیکن سرورق پر ’ورڈ آرٹ‘ کی وجہ سے یونیورسٹی کا نام تبدیل نہیں ہو سکا تھا اور سافٹ کاپی نے اِس چوری کا پول کھول دیا۔ نکتہ یہ ہے کہ اگر کوئی معلم چاہے تو وہ چوری شدہ تحقیق کو پہچان سکتا ہے لیکن جہاں تعلیمی اداروں میں مصلحت اور مداخلت سے کام لیا جاتا ہو وہاں اگر اِس قسم کے مجرموں کو پکڑ بھی لیا جائے تب بھی معلم بااثر طلبہ کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا ‘ نہ ہی مبینہ تحقیق ردی کی ٹوکری میں پھینک سکتا ہے؟ جب سوال کیا گیا کہ آپ نے اُس چوری شدہ تحقیق کو ضائع کر دیا ہوگا تو جواب ملا نہیں بلکہ طالب علم کو کامیاب ہونے کی سند جاری کر دی گئی کیونکہ اِس طرح کے واقعات تو معمول بن چکے ہیں! اِسی طرح ایک سرکاری یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنس میں گریجویشن مکمل کرنے والے محقق نے کہا کہ ”اُس کے ریسرچ سپروائز نے انگریزی زبان لکھنے میں مشکل کو دیکھتے ہوئے تجویز کیا کہ ’مصنوعی ذہانت‘ پر مبنی ’چیٹ جی پی ٹی‘ کا استعمال کرتے ہوئے مقالہ مکمل کر لو اور یہ مشورہ واقعی بڑا مفید ثابت ہوا۔“توجہ طلب ہے کہ ایک طرف ایسی دنیا ہے جو تحقیق کی وجہ سے علوم و فنون کی نت نئی شاخیں (بلندیاں) دریافت کر رہی ہے اور دوسری طرف تعلیم و تحقیق کا معیار ہے کہ جیسے ایک ہی محور کے گرد گھوم رہا ہو! گردوپیش میں دیکھیں آپ کو امتحانات کی تیاریاں کرانے والی کوچنگ اکیڈمیز کا بچھا ہوا جال دکھائی دے گا۔ جہاں تحقیق تنقیدی جائزہ یا علوم نہیں بلکہ کسی امتحان میں کامیاب (پاس) ہونے کے ’ہنر (شارٹ کٹس)‘ سکھائے جاتے ہیں۔ والدین اپنے بچوں کو خود کوچنگ اکیڈمیز بھیجتے ہیں تاکہ وہ امتحان میں نمایاں پوزیشن حاصل کر سکیں۔ عوام کے اِس رجحان کا زیادہ فائدہ اُٹھانے کے لئے کوچنگ اکیڈمیز امتحانات کے عمل اور امتحانات کے نتائج میں سرمایہ کاری کرتی ہیں اور اب یہ کام اِس قدر پھیل چکا ہے کہ بے قاعدگی بھی نہیں لگتا۔ افسوس کہ ہر درجے اور ہر سطح کی تعلیم کے لئے ٹیوشن سنٹرز گلی گلی فعال ہیں۔ اِس حوالے سے معروف قول ہے کہ ”اچھے اساتذہ مہنگے ہوتے ہیں لیکن بُرے اساتذہ کی قیمت اِن سے کہیں گنا زیادہ ہوتی ہے!“ یہی وہ بھاری قیمت ہے جو ہمارا ملک اور معاشرہ ادا کر رہا ہے اور اُس وقت تک ناقص المعیار تحقیق کے نتائج بھگتا رہے گا جب تک اپنی غلطی کی اِصلاح نہیں کر لیتا۔ کلاس روم کے ابتدائی درجے سے سوال کرنے اور علوم و فنون کا تنقیدی جائزہ لینے کی تربیت شامل نصاب ہونی چاہئے۔ کسی عقل مند شخص سے پوچھا گیا کہ کنویں کی کھدائی سے نکلی ہوئی مٹی کا کیا کروں؟ تو اُس نے مشورہ دیا کہ ایک اور کنواں کھود لو لیکن اِس مشورے کی تعمیل سے بھی مسئلہ حل نہ ہوا تو ایک نیا کنواں کھودنا پڑا اور یوں ایک کنویں کی مٹی ہر نئے کنویں کا پیٹ بھرتی رہی اور کام (مصروفیت) جاری رہی‘ جو باعث برکت و ثمر نہیں بلکہ باعث تھکاوٹ و پریشانی ہے! پاکستان میں تدریس اور تحقیق کا معیار بالکل ایسا ہی ہے کہ جیسے کسی ایک کنویں کی مٹی دوسرے اور پھر تیسرے کنویں میں ڈال کر کام مکمل کر لیا جائے لیکن مسئلہ اپنی جگہ جوں کا توں موجود رہے۔ ایک ایسے محقق سے ملنے کا اتفاق بھی قابل ذکر ہے جس نے سینکڑوں صفحات پر مشتمل اپنی تحقیق کو کتابی شکل میں شائع کیا‘ اُس کتاب کی رونمائی کروائی لیکن اُسے ’ایم ایس ورڈ‘ میں صفحات کے نمبر کس طرح ڈالے جاتے ہیں یہ طریقہ نہیں آتا تھا! اعلیٰ تعلیم و تحقیق سے متعلق فیصلہ سازوں کو یہ کہاوت ہر جامعہ کے داخلی و خارجی راستوں پر جلی حروف میں لکھ کر آویزاں کر دینی چاہئے کہ ”تعلیمی اسناد نہیں بلکہ تعلیم حاصل کرنا زیادہ ضروری و اہم ہے“۔