سورج کی روشنی (شمسی توانائی) سے بجلی بنانے کے لئے استعمال ہونے والے آلات (سولر سسٹم) کی قیمتوں میں کمی سے فائدہ اُٹھانے کا یہی بہترین وقت ہے اور سولر سسٹم کے بارے میں غلط فہمیوں کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ یہ ’سولر سسٹم‘ جہاں کہیں بھی تکنیکی پہلوؤں کا خیال رکھتے ہوئے نصب کئے گئے ہیں‘ کامیابی سے کام کر رہے ہیں لیکن اگر کہیں اِن کی کارکردگی خاطرخواہ نہیں یعنی صارفین کی توقعات پر پورا نہیں اُتر رہے تو اُس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ عموماً سولر سسٹم لگانے کے لئے غیرتجربہ کار افراد کی خدمات اور مشوروں سے استفادہ کیا جاتا ہے۔ چند ہزار روپے بچانے کے چکر میں ایک ایسا سولر سسٹم لگایا جاتا ہے جس کے مختلف آلات آپس میں میل جول نہیں رکھتے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ سولر سسٹم جہاں کہیں بھی لگایا جاتا ہے وہاں پر روشنی کے اوقات کو مدنظر رکھتے ہوئے لگایا جاتا ہے یعنی کسی علاقے میں سورج کی روشنی کتنی دیر رہتی ہے اور سورج کس سمت سے کس سمت میں سفر کرتا ہے اِن سبھی امور کو پیش نظررکھا جاتا ہے۔ ایسا نہیں ہوتا کہ بازار سے سولر پینل خرید کر اُنہیں گھر کی چھت پر بچھا دیا جائے اور توقع کی جائے کہ وہ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ بھی کریں گے۔ ذہن نشین رہے کہ سولر پینل 30 سے 45 درجے (ڈگری) پر لگایا جاتا ہے اور اِنہیں لگانے کے لئے گھر کے جغرافیئے (latitude) کو دیکھا جاتا ہے تاکہ سولر پینل زیادہ سے زیادہ روشنی میں رہیں اور اُن سے سارا سال زیادہ سے زیادہ توانائی (بجلی) حاصل کی جا سکے۔ جب ہم ’سارا سال‘ کہتے ہیں تو اِس سے مراد یہ ہوتی ہے کہ موسم گرما کے علاؤہ موسم سرما میں بھی سولر سسٹم فعال رہیں اور ایسا صرف اُسی وقت ممکن ہو گا جبکہ سولر پینلز کو نصب کرتے ہوئے تیس سے پینتالیس ڈگری کا خیال رکھا گیا ہوگا۔ پاکستان کے لئے بہترین زاویہ ”31.5 ڈگری“ ہے لیکن اگر یہ پینتیس ڈگری تک بھی ہو تب بھی ہر موسم میں سورج کی زیادہ سے زیادہ سولر پینل پر پڑتی رہے گی۔اب آتے ہیں اِس سوال کی جانب کہ کیا پاکستان میں ’سولر پینلز‘ کی قیمتیں کم ہوئی ہیں؟ تو جواب ہے کہ ہاں‘ قیمتیں کچھ کم ہوئی ہیں۔ یہاں ایک سوال یہ بھی پوچھا جا سکتا ہے کہ سولر پینلز اور اِن سے متعلق دیگر آلات درآمد ہوتے ہیں تو جب امریکی ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے تو ایسی صورت میں سولر پینلز کی قیمتیں کم کیوں ہوئی ہیں؟ اگر کوئی صارف اپنے گھر یا کاروبار کی جگہ پر 3 کلوواٹ (تین ہزار واٹ) کا ’سولر سسٹم‘ باقاعدہ انجینئر سے لگوائے اور وہ نیٹ میٹرنگ نہ بھی کرے تو بآسانی ایک عدد انورٹر ائرکنڈیشن‘ انورٹر پنکھا اور چند ’ایل اِی ڈی‘ لائٹس نہ صرف تمام دن روشن رکھ سکتا ہے بلکہ بنا واپڈا کی بجلی استعمال کئے وہ بیٹریاں بھی چارج رکھ سکتا ہے اور شام کے اوقات میں چار سے پانچ گھنٹے اُسے بیٹریوں کی مدد سے بجلی ملتی رہے گی یوں اُسے واپڈا سے ایک یونٹ بجلی بھی نہیں خریدنا پڑے گی۔ ذہن نشین رہے کہ گھریلو صارفین کے لئے بجلی کا فی یونٹ پچاس روپے جبکہ کاروباری صارفین کے لئے ایک خاص حد تک استعمال کے بعد فی یونٹ بجلی ستر روپے یا اِس سے بھی زیادہ ہو جاتی ہے۔ ایسی صورت میں ’سولر سسٹم‘ میں سرمایہ کاری کرنے سے بلاتعطل بجلی حاصل ہوتی رہے گی جس کی مقدار کا اگر سولر سسٹم سے موازنہ کیا جائے تو ایک سال یا اِس سے بھی کم عرصے میں سولر سسٹم پر لگائی گئی تمام رقم بنا منافع وصول ہو جائے گی اور اگر کوئی تکنیکی خرابی پیدا نہ ہو تو سولر سسٹم پچیس برس تک کارآمد رہتے ہیں۔سولر سسٹم کی جان دو چیزوں میں ہوتی ہے۔ ایک سولر پینل جسے بہترین (اے ون) کوالٹی کا ہونا چاہئے اور دوسرا سولر انورٹر جسے سولر پینلز کے حساب سے اِس قدر باصلاحیت ہونا چاہئے کہ وہ آنے والی توانائی کو کم سے کم ضائع کئے بغیر محفوظ یا استعمال کرنے کے لئے بھیج دے۔ سب سے پہلے بات چھوٹے سولر انورٹر کی کرتے ہیں۔ ایک اعشاریہ دو کلو واٹ طاقت والا سولر میک نامی کمپنی کا جیگوار نامی سولر انورٹر 900 واٹ طاقت رکھتا ہے اُور اِس کی موجودہ قیمت 39 ہزار روپے ہے۔ یہ انورٹر کسی بھی گھر‘ دکان یا دفتر کی کم سے کم ضرورت کے لئے ہے جیسا کہ اگر کوئی درزی یا حجام اپنی دکان کی سولرائزیشن کرنا چاہے تو یہ ایک کلوواٹ کا سسٹم اُس کے کارآمد رہے گا جس پر ’ائرکنڈیشن‘ فریج‘ فریزر‘ پانی کی موٹر نہیں چلائی جا سکتی لیکن یہ چار پانچ ’ایل اِی ڈیز‘ اور چند انورٹر یا دیگر پنکھے اور ایک استری چلا سکتا ہے۔ سولر سسٹم میں 3 کلوواٹ کا انورٹر جو مارکیٹ میں سب زیادہ کامیاب اور استعمال ہو رہا ہے وہ میکس پاور کمپنی کا ہے چھ کلو واٹ (زیادہ صلاحیت والے) انورٹرز میں سولر میکس کا Orion‘ سن ٹرونک 6 ہزار اور انوریکس کا Verone-II ماڈل پاکستان کے لحاظ سے بہترین سمجھے جاتے ہیں اور اِن پر ساڑھے چھ کلوواٹ کے سولر پینلز لگائے جا سکتے ہیں۔ سن ٹرونک نامی ماڈل کو پسند کرنے کی ایک وجہ یہ بتائی گئی ہے کہ اِس میں wifi کی سہولت موجود ہے یعنی آپ کا سولر سسٹم کتنی بجلی پیدا کر رہا اور اُس بجلی کا استعمال کس طرح اور کس قدر ہو رہا ہے اِس حوالے سے تفصیلات بذریعہ موبائل فون دیکھی جا سکتی ہیں‘ یہ تفصیلات کسی ایک وقت یا ہفتوں اور مہینوں کی بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔ یہ خصوصیت اپنی جگہ اہم ہے کیونکہ صارف کو سولر انورٹر کے پاس جا کر تفصیلات دیکھنا نہیں پڑتیں اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھے بیٹھے بھی یہ تفصیلات دیکھ سکتا ہے۔ یہ انورٹرز دو لاکھ سے دو لاکھ بیس ہزار روپے کے درمیان مل جاتے ہیں۔ وائی فائی والا انورٹر ڈھائی لاکھ روپے تک مل جاتا ہے۔ سولر میکس کا Orion کامیاب ماڈل سمجھا جاتا ہے جس کی فی الوقت قیمت دو لاکھ پینسٹھ ہزار روپے ہے۔ یہ ماڈل ٹچ سکرین کے ساتھ ہے جبکہ دیگر ماڈلز کی سکرین ٹچ نہیں ہیں اور اِس میں وائی فائی بھی ہے۔ سولر پینلز کے ساتھ ’سرو موٹر والے اسٹیبلائزرز‘ ضرورت بھی ہوتی ہے۔ اس کے علاؤہ پروٹیکشن سسٹم میں بھی کچھ آلات لگوا لئے جائیں تو بہتر رہتا ہے۔ انوریکس کا 3 کلوواٹ‘ سنگل فیز‘ انورٹر جس پر ائرکنڈیشن چلایا جا سکتا ہے۔ ip-65 میں پاکستان کا پہلا انورٹر یہی ہے جو ڈیول آؤٹ پٹ کے ساتھ آتا ہے۔ ٹچ سکرین ہے اور چار ہزار واٹ تک کے سولر پینلز اِس کے ساتھ لگائے (کنیکٹ) کئے جا سکتے ہیں۔ تین کلوواٹ کے بعد چھ کلوواٹ کے انورٹرز ہوتے ہیں۔ انوریکس کا Nitro-X ڈبل اِن پٹ اُور ڈبل آؤٹ پٹ کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اِسی درجے میں سولر میکس کا انورٹر بھی یکساں مفید سمجھا جاتا ہے جس کے ساتھ چودہ پینلز لگائے جا سکتے ہیں یہ 2 ائرکنڈیشن چلا سکتا ہے۔ اِس کی قیمت 3 لاکھ 55 ہزار روپے ہے۔ اگر کسی صارف نے تین ائرکنڈیشن چلانے ہیں تو اُسے 8کلوواٹ کا انورٹر خریدنا پڑے گا۔ سولر سسٹم میں دلچسپی رکھنے والے اگر ایک ائرکنڈیشن چلانا چاہتے ہیں تو تین کلوواٹ‘ اگر دو ائرکنڈیشن چلانا چاہتے ہیں تو چھ کلوواٹ اور اگر بیک وقت تین ائرکنڈیشن چلانا چاہتے ہیں تو اُنہیں 8 کلوواٹ کا انورٹر خریدنا پڑے گا‘دس کلوواٹ کے انورٹر کی قیمت 8 لاکھ 10 ہزار روپے سے شروع ہوتی ہے۔ پاکستان میں سولر پینلز کی زیادہ تر درآمد ’چین (چائنا)‘ سے ہوتی ہے جہاں اِن کی قیمت بہت کم ہے لیکن درآمد کرنے والے پاکستان میں قیمتوں کا تعین کرتے ہیں چونکہ سولر سسٹم کی فروخت اِن دنوں کم ہوئی ہے اِس وجہ سے سولر سسٹمز کی قیمتیں بھی کم کی گئیں ہیں۔ درآمد کنندگان جانتے ہیں کہ نئے ماڈلز آنے سے پرانے ماڈلز کی مانگ ختم ہو جائے گی اِس لئے پاکستان کی مارکیٹ میں زیادہ تر پرانے ماڈلز ہی فروخت کئے جا رہے ہیں اور نئے ماڈلز پشاور جیسی نسبتاً چھوٹی مارکیٹ میں متعارف نہیں ہو رہے‘ایک وقت تھا جب فی کلوواٹ 95 روپے تھا آج فی کلوواٹ 75 روپے ہے اِس طرح اے ون کٹیگری (لونگی‘ جے اے‘ کنیڈین) کا 550 کلوواٹ کا ایک پینل 41 ہزار 250 روپے کا ہے‘ سولر سسٹم نصب کرانے کا یہی بہترین وقت ہے سولر سسٹم کی قیمتیں مزید کم ہوں گی لیکن 75 روپے فی کلوواٹ سے کم ہونا اِس لئے بھی ممکن نہیں کیونکہ کاروباری اخراجات (پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافے سے نقل و حمل کے خرچ‘ بجلی و دیگر یوٹیلٹی بلز اُور دکانوں کے کرائے وغیرہ) بڑھ رہے ہیں۔