حکومت کی طرف سے ایسے متعدد منصوبوں کو جلد مکمل کرنے کا دعویٰ کیا گیا ہے جو اس کے بقول ملکی آئی ٹی انڈسٹری کیلئے گیم چینجر ثابت ہوں گے۔ تاہم ماہرین کے مطابق پاکستان کو اس سمت میں ابھی ایک لمبا سفر کرنا ہے‘پاکستان کا تجارتی خسارہ گزشتہ دو تین دہائیوں سے بڑھتا ہی جا رہا ہے‘ ملک میں بڑھتی ہوئی انرجی کی قیمتیں، مختلف طرح کی سبسڈیز کے خاتمے اور امن و امان کی غیر تسلی بخش صورتحال کے پیش نظر پاکستانی درآمدات کو عالمی مارکیٹ میں اپنے حریفوں سے مقابلہ کرنے میں دشواری کا سامنا ہے تاہم آئی ٹی کے شعبے کے حوالے سے یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اس کی ایکسپورٹ میں دوسرے شعبوں کی نسبت اضافہ ہوا ہے‘اس بارے میں تفصیلات جاننے کیلئے ڈی ڈبلیو کی طرف سے بھجوائے گئے ایک تحریری سوالنامے کے جوابات کے مطابق انفارمیشن و کمیونیکیشن ٹیکنالوجی کو ملک کے طول و عرض تک پھیلانے کیلئے آپٹیکل فائبر کیبل بچھانے اور براڈ بینڈ سروسز کی فراہمی کیلئے صرف چار سال کی مختصر مدت میں 77 ارب 80 کروڑ روپے کی لاگت سے 83 مختلف منصوبوں کا اجرا کیا گیا‘ ان منصوبوں کی تکمیل رواں سال دسمبر تک ہوجائے گی اور یہ کہ اس کے نتیجے میں پسماندہ و دور دراز کے گاؤں‘دیہات میں مقیم چار کروڑ سے زائد افراد کو براڈ بینڈ سروسز میسر آئیں گی۔ نیشنل انکوبیشن سینٹرز، سافٹ ویئر ٹیکنالوجی پارکس کے قیام کے علاوہ اسٹارٹ اپس ایکو سسٹم اور فری لانس ٹریننگ پروگرام کے حوالے سے مختلف منصوبوں کا آغاز کیا گیا‘گوگل، مائیکرو سافٹ، پاکستان کی میگا آئی ٹی کمپنیوں کے ساتھ مل کر عالمی معیار و طلب کے مطابق تربیتی پروگرامز ڈیزائن کئے گئے ہیں؛اب تک33 لاکھ سے زائد مرد و خواتین کو مختلف کورسز میں فری لانسنگ کی تربیت فراہم کی جاچکی ہے‘اب جامعات سے سالانہ 40 ہزارسے50ہزار آئی ٹی گریجویٹس فارغ التحصیل ہورہے ہیں جب کہ آئی ٹی ایکسپورٹ گذشتہ 3سال میں 90کروڑ ڈالرز سے بڑھ کر 2 ارب 60کروڑ ڈالرز تک جاپہنچی ہیں پاکستان کو بھی ایسے ہی کامیابی مل سکتی ہے۔ پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ، فائبر اپٹک میں بار بار آنے والی خرابی، آن لائن پلیٹ فارمز کے حوالے سے مختلف پابندیاں اور ملک میں سیاسی بے یقینی ان عوامل میں سے ہیں جو آئی ٹی سمیت سارے شعبوں کو متاثر کر رہی ہیں‘ آئی ٹی کی صنعت سے ہی منسلک ایک اور ماہر ڈاکٹر فہد ابدالی کا کہنا ہے کہ اگر اخلاص کے ساتھ کوششیں کی جائیں تو پاکستان 15 بلین ڈالرز بلکہ اس سے بھی زیادہ کی آئی ٹی ایکسپورٹ کر سکتا ہے۔ جو بات ہمیں پیش نظر رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ آئی ٹی کے حوالے سے کام دنیا کے کسی بھی خطے میں بیٹھ کر کیا جا سکتا ہے‘حکومت نے موجودہ بجٹ میں آئی ٹی کے شعبے سے تعلق رکھنے والوں کو بہت ساری مراعات دی ہیں، اگر یہ باقی رہتی ہیں تو ایکسپورٹ بڑھنے کے بالکل امکانات ہیں۔تاہم ڈاکٹر فہد ابدالی کے مطابق اگر حکومت صحیح معنوں میں آئی ٹی کی شعبے کو ترقی دینا چاہتی ہے تو اس کو مقامی صنعت کو بھی بہتر کرنا پڑے گا‘حکومت جتنے بھی آئی ٹی کے ماہرین تیار کر رہی ہے وہ یا تو یہاں بیٹھ کر سافٹ ویئر ہاؤسز میں کام کریں گے یا کچھ عرصے کے بعد دوسرے ممالک میں چلے جائیں گے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ آئی ٹی کی ٹریننگ حاصل کرنے والوں کو مقامی سطح پہ روزگار دیا جائے تاکہ وہ یہاں بیٹھ کر پاکستان کی خدمت کر سکیں۔