رانی پور میں ایک روحانی پیشوا کی جانب سے مبینہ طور پر جان لیوا تشدد کا نشانہ بننے والی 10 سالہ گھریلو ملازمہ فاطمہ کے ابتدائی طبی معائنے میں اس بات کی تصدیق ہوئی ہے کہ اُسے جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
خیرپور کے علاقے رانی پور میں مقامی بااثر پیر اسد شاہ کی رہائش گاہ میں متوفی لڑکی گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرتی تھی۔
پیر اسد کے خلاف مقتولہ کی والدہ شبنم خاتون کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ بعد ازاں پیر اسد کو پولیس نے گرفتار کر لیا۔
جمعہ کے روز خیرپور پولیس نے مقتولہ کی لاش کو نکالنے اور پوسٹ مارٹم کرنے کے لئے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا تھا جو گزشتہ روز مکمل ہوا تھا۔
سکھر کے ڈی آئی جی جاوید جسکانی کی رپورٹ کے مطابق میڈیکل بورڈ نے بھی جنسی زیادتی کے امکان کے حوالے سے خدشات کا اظہار کیا ہے جس کے بعد ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے ابتدائی ملزم کے نمونے اکٹھے کیے گئے ہیں۔
مزید برآں ڈی آئی جی سکھر نے کہا کہ کیس کی تفتیش میں شامل رانی پور کے ایس ایچ او اور ہیڈ محرار، ایک ڈاکٹر اور ایک کمپاؤنڈر کے ریمانڈ کی درخواست کی جائے گی۔
توقع کی جارہی ہے کہ ان مشتبہ افراد کو ثبوتوں سے چھیڑ چھاڑ کرنے اور مناسب پوسٹ مارٹم جانچ کے بغیر متاثرہ کو دفن کرنے کے معاملے میں باضابطہ طور پر ملوث کیا جائے گا۔
ڈی آئی جی نے روحانی پیشوا کی رہائش گاہ میں رہنے والے تمام بچوں کو بچانے اور ان کے اہل خانہ کے پاس محفوظ واپسی کو یقینی بنانے کے احکامات بھی جاری کیے ہیں۔
رہائش گاہ پر ایک پولیس چوکی قائم کی جائے گی اور وہاں موجود تمام بالغ مردوں کے ڈی این اے نمونے جمع کیے جائیں گے۔ متاثرہ کے جسم سے حاصل کیے گئے نمونے پہلے ہی تجزیے کے لیے لیبارٹری بھیجے جا چکے ہیں۔
تفتیشی افسر کے مطابق ابتدائی ملزم اسد شاہ کے جی آئی ایم ایس اسپتال میں ٹیسٹ کیے گئے ہیں جن میں ناک اور خون کے نمونے بھی شامل ہیں۔
ڈی آئی جی نے کہا کہ رپورٹ کے نتائج کو منظر عام پر لایا جائے گا۔