سولر سسٹم : درست بیٹری کا انتخاب

سورج کی روشنی سے بجلی حاصل کرنےکا نظام ’سولر سسٹم‘ کہلاتا ہے جس کے آلات عام دستیاب ہیں لیکن کسی گھر‘ دفتر یا دکان کے لئے کتنی طاقت و صلاحیت کا ’سولر سسٹم‘ درکار ہوگا اِس بات سے متعلق فیصلہ صارف کو خود کرنا ہوتا ہے‘ کم پیداواری صلاحیت اور زیادہ پیداواری صلاحیت والا سولر سسٹم نصب کی الگ الگ عموماً سولر سسٹم کو کم اور زیادہ ضرورت کے حساب سے خریدا جاتا ہے‘ کسی صارف کےلئے ’کم لوڈ‘ اور ’زیادہ لوڈ‘ جاننے کا آسان طریقہ بجلی کا ماہانہ بل ہے جس پر ایک سال میں ہر ماہ استعمال شدہ یونٹس کی تفصیلات درج ہوتی ہے‘ بہتر یہی ہے کہ بجلی کے بل میں ہر ماہ استعمال شدہ یونٹس کو جمع کر کے اوسط نکال لی جائے کہ ہر مہینے کا اوسط لوڈ کتنا ہوتا ہے‘ دوسری اہم بات یہ ہے بجلی کے بل سے درست لوڈ کا اندازہ لگانے کی بجائے صارف اگر اِس بات کا فیصلہ کرے کہ اُسے سولر سسٹم پر ائرکنڈیشن‘ استری‘ پانی کی موٹر‘ ٹیلی ویژن‘ فریج یا فریزر چلانے ہیں یا نہیں‘ اگر سولر سسٹم بیک وقت ایک دو پنکھوں اور بجلی کے چند بلب جلانے کےلئے چاہئے تو یہ انتہائی کم لوڈ ہے اور اِس کےلئے زیادہ سرمایہ کاری کی ضرورت بھی نہیں ہوگی‘ ایک ایسا سولر سسٹم جو تھوڑے لوڈ میں بنا واپڈا کی بجلی استعمال ایک ہزار واٹ تک کا بوجھ اُٹھا سکتا ہے تین لاکھ روپے میں لگایا جا سکتا ہے اور یہ تین لاکھ روپے میں پانچ سال تک گھر کی تمام ضروریات پوری کی جا سکیں گی‘ پانچ سال بیٹری کی لائف ہے جبکہ سولر آلات 25 سال تک کےلئے کارآمد ہوں گے یعنی صارف کو پانچ سال بعد صرف بیٹریاں تبدیل کرنا ہوں گی اور یہی سولر سسٹم کا سب سے بڑا خرچ ہے‘ بیٹری کسی بھی سولر سسٹم کی جان ہوتی ہے جو بجلی کو ڈائریکٹ کرنٹ (DC) کی صورت میں ایک خاص وقت تک ذخیرہ رکھنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ بنیادی طور پر بیٹری 2 قسم کی ہوتی ہے۔ ایک تیزاب والی بیٹری جسے ’wet سیل بیٹری‘ کہا جاتا ہے اور دوسرا خشک بیٹری جسے ’dry سیل بیٹری‘ کہا جاتا ہے‘ تیزاب والی بیٹری کے مقابلے خشک سیل بیٹریاں جن کی کئی اقسام ہوتی ہیں قیمت کے لحاظ سے دوگنی اور اِس سے بھی زیادہ مہنگی ہیں تاہم اِن کے کام کرنے کی صلاحیت اور دیرپا کارکردگی قیمت کے بظاہر فرق کے باوجود اِن کا درست انتخاب سمجھی جاتی ہیںبرطانوی کہاوت ہے کہ ایک کلوواٹ بجلی بچانے کا مطلب ایک کلوواٹ بجلی پیدا کرنا ہوتا ہے‘ اِسلئے اگر واپڈا کی طرح سولر سسٹم سے ملنے والی بجلی کو بھی کم سے کم اور حسب ضرورت استعمال کیا جائے تو اِس سے بیٹریوں پر بوجھ نہیں پڑتا اُور سولر سسٹم سے جڑی بیٹریاں نہ صرف زیادہ لمبے عرصے کارآمد رہتی ہیں بلکہ وہ کسی بھی دن زیادہ گھنٹے بجلی دے سکتی ہیں‘ ایک ایسا سولر سسٹم جو ’گرڈ سے جڑا ہو اُس کےلئے بیٹری لگانے کی ضرورت نہیں ہوتی لیکن ایسا سولر سسٹم جسے بجلی کےساتھ نہ جوڑا جائے اُس میں توانائی ذخیرہ رکھنے کےلئے بیٹری درکار ہوتی ہے اور یہی سولر سسٹم کے دو بنیادی روپ ہیں یعنی ایک ’آن گرڈ‘ اور دوسرا ’آف گرڈ“ بیٹری کی صلاحیت ’ولٹیج‘ کے حساب سے ہوتی ہے‘ یہ چھ‘ بارہ‘ چوبیس اور اڑتالیس واٹس کی صلاحیت رکھتی ہیں۔ بیٹری کی دوسری صلاحیت ’ڈی او ڈی‘ کہلاتی ہے یعنی ڈیپتھ آف ڈیسچارج‘ عموماً بیٹریاں پچاس اور اَسی فیصد کے تناسب پر ڈی او ڈی رکھتی ہیں۔ تیسری تکنیکی چیز ’ڈی او اے‘ کہلاتی ہے یعنی وہ کتنے دنوں تک توانائی ذخیرہ رکھ سکتی ہے اور اُس کے ذخیرہ رکھنے کی مقدار وقت کےساتھ کس قدر ضائع ہوتی ہے‘ بیٹری کی صلاحیت ایمپیئرز فی گھنٹہ کے حساب سے دیکھے جاتے ہیں‘ اگر کسی بیٹری میں ذخیرہ پچاس فیصدی توانائی استعمال کی جائے اور اِسے دوبارہ چارج کر لیا جائے تو یہ بیٹری اُس بیٹری کے مقابلے زیادہ دیر تک کارآمد اور صحت مند رہے گی جسے پچاس فیصد سے زیادہ استعمال کیا گیا ہو‘ اِسلئے سولر سسٹم لگانے سے پہلے زیادہ صلاحیت والی بیٹریوں میں سرمایہ کاری کرنا بہتر رہتا ہے اِس سے بیٹری کی زندگی زیادہ دورانئے کا ہوتا ہے ‘بیٹری کی صلاحیت برقرار رکھنے کےلئے ضروری ہے کہ اِس کا استعمال متواتر کیا جاتا رہے اگرچہ ایسا کرنے کی ضرورت نہ بھی ہو‘ہر دن اگر چند گھنٹے بیٹری کو استعمال کر کے اِسے دوبارہ سولر یا واپڈا کی بجلی سے چارج کر لیاجائے تو اِس کی صلاحیت برقرار رہتی ہے۔ ’سولر سسٹم‘ کے بارے میں ایک غلط فہمی کا ازالہ بھی ضروری ہے کہ اِس نظام کو لگانے کے بعد ’بے فکری‘ ہو جائے گی تو ایسا نہیں ہے بلکہ سولر پینلز اور بیٹریز پر نظر رکھنے کی ضرورت رہتی ہے‘ سولر پینلز کی صفائی‘ اُن پر پڑنے والے گردوغبار کو صاف کرنے اور بیٹریوں کے چارج ڈسچارج پر نظر رکھنا پڑتی ہے اور یہ دیکھ بھال کبھی کبھار کےلئے نہیں بلکہ مستقل رکھنی پڑتی ہے‘ عموماً صارفین پینے کےلئے استعمال ہونے والا پانی بیٹریوں میں ڈال دیتے ہیں‘ ایسا کھارا پانی جس میں نمکیات ہوں‘ بیٹری کے cells کی ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنتا ہے‘ بہتر یہی ہے کہ بیٹری ٹانک کا استعمال کیا جائے‘ بیٹریاں فروخت کرنے والوں کے پاس سے یہ خصوصی بنا نمکیات والا پانی باآسانی اور مناسب قیمت میں مل جاتا ہے‘ ائرکنڈیشن سے خارج ہونے والا پانی بھی بیٹریوں میں ڈالا جا سکتا ہے اُن میں بھی نمکیات نہیں ہوتے لیکن اِس بات کا خیال رکھیں کہ جس برتن میں ائرکنڈیشن سے حاصل شدہ پانی جمع کیا جائے اُس میں مٹی یا گردوغبار شامل نہ ہو۔ بیٹری میں موجود تیزاب کی سطح جانچنے کےلئے نشانات بیٹری کے اوپر لگے ہوتے ہیں۔ اہم بات یہ بھی ہے کہ بیٹری کے ٹرمینلز پر زنگ جمع ہونے نہ دیں۔ ایسا ہونے کی صورت بیٹری پوری طرح چارج نہیں ہوتی۔ اگر کاربن جمع ہو جائے تو اُسے گرم پانی سے دھو کر پیٹرولیم جیلی یا گریس لگا دی جائے تو کاربن (زنگ) جمع نہیں ہوتا۔ سولر سسٹم میں صرف پیسے ہی کی صورت نہیں بلکہ وقت کی سرمایہ کاری بھی کرنا پڑتی ہے اور اِسلئے درست صلاحیت والے سولر سسٹم کےساتھ درست بیٹریوں کا انتخاب بھی یکساں اہم و ضروری ہے‘اس ضمن میں متعلقہ شعبہ کے ماہرین کی رائے استفادہ کرنا زیادہ بہتر ہوتا ہے بجائے اس کے خود تجربات کرکے نقصان اٹھایا جائے۔