اس وقت عالمی منظر نامے پر طاقتور ممالک کے درمیان اثر رسوخ میں اضافے کی دوڑ جاری ہے جس میں امریکہ اور چین ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔چین اُبھرتی ہوئی معیشتوں کے بلاک برکس کو وسعت دینا چاہتا ہے لیکن بھارت کو اس پر تحفظات ہیں کیونکہ اس کے خیال میں بیجنگ کا مقصد اپنا اثر و رسوخ بڑھانا ہے۔ جوہانسبرگ میں جاری برکس کانفرنس میں اس حوالے سے کوئی فیصلہ متوقع ہے۔جوہانسبرگ میں جاری برکس کانفرنس میں چین نے گزشتہ روز اُبھرتی ہوئی معیشتوں کے اس بلاک میں توسیع کے منصوبوں پر زور دیا۔ یہ بلاک عالمی سطح پر اپنی سیاسی اور اقتصادی طاقت کو مستحکم کرنے کی کوشش کررہا ہے۔برازیل، روس، بھارت، چین اور جنوبی افریقہ پر مشتمل برکس ممالک عالمی معیشت کی ایک چوتھائی کی نمائندگی کرتے ہیں اور بہت سے ممالک بھی اس اُبھرتے ہوئے گروپ میں شمولیت کے خواہش مند ہیں۔ برکس کے افتتاحی اجلاس میں چین کے وزیر تجارت وانگ وینتاو کے ذریعہ پڑھی گئی چینی صدر کی تقریر میں شی جن پنگ کا کہنا تھا، "خواہ جو بھی مزاحمت ہو لیکن برکس، خیر سگالی کے لیے ایک مثبت اور مستحکم قوت کے طورپر بڑھتا ہی جا رہا ہے۔ ہم ایک مضبوط برکس سٹریٹیجک شراکت داری قائم کریں گے... رکنیت کی توسیع کو فعال طور پر آگے بڑھائیں گے اور بین الاقوامی نظم کو مزید منصفانہ اور مساوی بنانے میں مدد کریں گے۔شی جن پنگ نے کہا کہ جوہانسبرگ میں ہونے والی بات چیت کا مقصدممالک کے فریق بننے یا بلاک میں تصادم پیدا کرنا نہیں بلکہ امن اور ترقی کے معمار کے طورپر اسے وسعت دینا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ تعصب چین کے ڈی این اے میں نہیں ہے۔دیکھا جائے تو اس وقت چین برکس کی سب سے طاقت ور معیشت ہے اور صدر شی جن پنگ کا جنوبی افریقہ کا یہ سرکاری دورہ اس سال ان کا دوسرا بین الاقوامی دورہ ہے۔برکس دنیا کی 40 فیصد آبادی او ردنیا کی ایک چوتھائی دولت کی نمائندگی کرتا ہے اور بہت سے ممالک اپنے قومی مفادات کے لیے اس ابھرتے ہوئے بلاک میں شامل ہونے کے خواہش مند ہیں۔جنوبی افریقہ کے حکام کا کہنا ہے کہ 40 سے زائد ملکوں نے برکس میں شامل ہونے میں کسی نہ کسی سطح پر دلچسپی ظاہر کی ہے۔برکس کے اراکین کی طرح ہی یہ ممالک مختلف سیاسی نظام، غیر مساوی اقتصادی طاقت اور متضاد سفارتی موقف کی نمائندگی کرتے ہیں۔ یہ ثقافتی اور جغرافیائی طورپر بھی کافی متنوع ہیں۔ مثال کے طورپر ارجنٹائن، سعودی عرب، قازکستان اور ویت نام۔بہت سے ممالک روایتی طور پر ناوابستہ ہیں، مثلا انڈونیشیا اور ایتھوپیا اور کچھ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے کھلے مخالف ہیں جیسے کہ ایران اور وینزویلا۔حکام کے مطابق تقریباً50 ممالک کے سربراہان جوہانس برگ کانفرنس میں حصہ لے رہے ہیں۔تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ چین، جو کہ برکس کا اقتصادی طورپر سب سے طاقت ور ملک ہے، اس گروپ کو دنیا کے امیر ترین جمہوریتوں کے گروپ جی۔7 کا متبادل بنانے کے لئے کوشاں ہے۔چینی وزیر خارجہ نے جولائی میں برکس کو اُبھرتی ہوئی منڈیوں اور ترقی پذیر ممالک کے درمیان تعاون کا سب سے اہم پلیٹ فارم قرار دیا تھا اور کہا کہ چین اس بلاک کو وسعت اور مضبوط کرنے کے لئے دیگر اراکین کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لئے تیار ہے۔روس اور جنوبی افریقہ بھی برکس میں نئے اراکین کی شمولیت کی حمایت کرتے ہیں۔روس برکس ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات مزید گہرے کرنا چاہتا ہے۔