سستی اور مہنگی بجلی کا تعلق صرف برقی آلات کے استعمال کی صورت سہولت سے آسائش ہی نہیں بلکہ اِس کا تعلق جدید معیشت اور مستقبل کی ضروریات سے بھی ہے‘ اگر یہ بات سمجھ نہ آئے تو بجلی کی قیمت اور کرپٹو کرنسی ’بٹ کوائن‘ کی تخلیق کے لئے کی جانے والی کان کنی (مائننگ) کے درمیان تعلق دیکھیں کہ کس طرح جن ممالک میں بجلی کی قیمت زیادہ ہے وہاں ’بٹ کوائن‘ کے حصول کا عمل‘ اِس کی بنیادی قیمت سے بھی زیادہ ہے۔ اِس سلسلے میں پہلی بات یہ ہے کہ 23 اگست 2023ءکے روز ’ایک‘ بٹ کوائن کی قیمت 26 ہزار ڈالر یعنی’77 لاکھ 35ہزار‘ پاکستانی روپے ہے۔ ایک بٹ کوائن کو تخلیق کرنے کےلئے 10 منٹ سے 30 دن کا وقت لگ سکتا ہے اور یہ دورانیہ زیراستعمال کمپیوٹر (ہارڈ وئر) کی وجہ سے کم یا زیادہ ہو سکتا ہے۔ جب ہم کمپیوٹر ہارڈ وئر کی بات کرتے ہیں تو ایک وقت میں ’کور ٹو ڈو (Core2Duo)‘ کمپیوٹر میں 8 گیگابائٹ ریم (RAM) کے ذریعے بھی ’بٹ کوائن‘ کی تخلیقی عمل (پراسیس) کا آغاز کیا جا سکتا تھا لیکن اب چونکہ ’بٹ کوائن‘ کی تخلیق و تلاش کا عمل زیادہ وسیع اور صنعتی پیمانے پر ہو رہا ہے اِس لئے عام گھریلو کمپیوٹر کے ذریعے ’بٹ کوائن‘ کا حصول اگرچہ اب بھی ممکن ہے لیکن اِس عمل پر خرچ ہونے والی بجلی کی قیمت کے باعث یہ منافع بخش نہیں رہا۔ بٹ کوائن کے لئے کمپیوٹر یا لیپ ٹاپ میں توانا قسم کا ’گرافک پراسسنگ یونٹ (GPU)‘ ہونا چاہئے یا پھر مشین ’ایپلی کیشن اسپیسیفک انٹیگریٹیڈ سرکٹ (ASIC)‘ سے لیس ہونی چاہئے۔ یہ دونوں بنیادی تکنیکی ضروریات ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ کمپیوٹر جس قدر زیادہ طاقتور ہوگا وہ بٹ کوائن کی کھوج (مائننگ) اُتنے ہی کم وقت میں کر سکے گا جبکہ اِس کا تعلق انفرادی یا اجتماعی خوش قسمتی سے نہیں ہے۔ موبائل فون کے استعمال سے بھی بٹ کوائننگ کی جا رہی ہے تاہم اِس لئے ایک خصوصی قسم کے سافٹ وئر (موبائل فون ایپ) کی ضرورت ہوتی ہے لیکن یہ کمپیوٹروں سے تھوڑا مختلف عمل ہے کہ اِس میں کسی ایپلی کیشن کو استعمال کرنے والے بہت سے صارفین مل کر اپنے اپنے فون کی کمپیوٹنگ طاقت و صلاحیت کا استعمال کرتے ہوئے ’بٹ کوائن مائننگ‘ کر رہے ہوتے ہیں۔ بٹ کوائن ایک وسیع موضوع ہے۔ کرپٹوکرنسی کی یہ قسم قیمت کے لحاظ سے زیادہ ہونے کی وجہ سے طلب اور مانگ کے لحاظ سے بھی قیمتی ہے اور اِسی وجہ سے اِس کا حصول قدرے مشکل ہے تاہم دیگر ایسی کرپٹو کرنسیز موجود ہیں جن کا حصول باآسانی کیا جا سکتا ہے جیسا کہ ’مونیرو (Monero)‘ نامی کرپٹو کرنسی جسے کا اصطلاحی نام XMR ہے اور یہ کم پیچیدہ ریاضی کے طریقوں (mathematical equations) کا استعمال کر کے حاصل کی جا سکتی ہے۔بٹ کوائن کی ایجاد جنوری 2009ءمیں ہوئی‘ جس کے خالق کا نام ستوشی ناکاموٹو (Satoshi Nakamoto) ہے تاہم اِس نام کے بارے میں بھی واضح نہیں کہ آیا یہ کسی ایک شخص کا ہے یا ایک سے زیادہ افراد نے اِس کرنسی کو ایجاد کیا تھا اور آخری مرتبہ ستوشی کی جانب سے کوئی بھی پیغام یا خبر دوہزاردس میں سنی گئی جس کے بعد سے وہ خاموش ہے اور اِس کرنسی کی پراسرار ایجاد سے متعلق دنیا وہی کچھ جانتی ہے جو ستوشی نے 2008ءکے دوران لکھے ایک مقالے میں بتایا تھا۔ ’بٹ کوائن‘ کی تلاش ہمیشہ ہی سے دلچسپ موضوع رہا ہے۔ یہ ایک معلوم خزانہ ہے جس کی تلاش اگر پاکستان میں کی جائے تو اِس پر کتنی لاگت آئے گی؟ کیا ’بٹ کوائن‘ کی تلاش فائدہ مند ہے بھی یا نہیں؟ اور کیا پاکستان میں بٹ کوائن کی تلاش یا خریدوفروخت ہونی چاہئے جبکہ اِسے قانونی تحفظ حاصل نہیں ہے؟ پہلی بات: آج کی تاریخ میں ایک بٹ کوائن کی قیمت ’26 ہزار ڈالر‘ کے مساوی ہے اور اگر پاکستان میں کوئی شخص ایک بٹ کوائن حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے تو اُسے کم سے کم بھی ’13 ہزار 800 ڈالر‘ کی بجلی خرچ کرنا پڑے گی جبکہ کامیابی سوفیصدی یقینی بھی نہیں ہوگی اور اِس کی وجہ یہ ہے کہ بٹ کوائن کی تلاش (مائننگ) کا عمل بنا رکاوٹ جاری رکھنا ہوتا ہے جس کے لئے بجلی کی مسلسل (بنا رکاوٹ) فراہمی کے لئے ’پاور بیک اپ‘ آلات جیسا کہ یو پی ایس‘ سولر سسٹم یا آٹومیٹک جنریٹرز کی ضرورت پڑتی ہے اور کمپیوٹر آلات کو ٹھنڈا رکھنے کے لئے مسلسل ائرکنڈیشن بھی چالو (On) رکھنا پڑتا ہے اِس لئے فی بٹ کوائن کی یہ قیمت مزید بڑھ جاتی ہے۔ نوجوان مہم جوئی سے پہلے اِس بات کو ذہن میں رکھیں۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں سب سے سستی بجلی ’لبنان‘ میں ہونے کی وجہ سے وہاں ایک بٹ کوائن 0.26 ہزار امریکی ڈالر کی بجلی خرچ کر کے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ ایران میں 0.53 ہزار ڈالر‘ عراق میں 3.9 ہزار ڈالر‘ مصر میں 7.2 ہزار ڈالر‘ نائجیریا میں 7.7 ہزار ڈالر‘ قطر میں 8.3 ہزار ڈالر‘ ارجنٹینا میں 9 ہزار ڈالر‘ یوکرائن میں 10.7ہزار ڈالر‘ وینزویلا میں 12.2 ہزار ڈالر‘ ملائیشیا میں 12.5 ہزار ڈالر‘ قازقستان میں 12.9 ہزار ڈالر‘ بنگلہ دیش میں 13.8 ہزار ڈالر اور پاکستان میں کم سے کم 13.8 ہزار ڈالر کی بجلی خرچ کر کے اگر ایک بٹ کوائن ملے تو اِس کی دگنی قیمت یعنی چھبیس ہزار ڈالر مل سکتے ہیں لیکن یہ بات یقینی نہیں ہو گی کہ اِس قدر مالیت کی بجلی خرچ کرنے کے باوجود بھی کچھ ہاتھ آئے گا یا نہیں۔ اِس لئے ضروری ہے کہ تجسس یا دلچسپی رکھنے والے نوجوانوں کی رہنمائی کا خاطرخواہ اہتمام و انتظام کیا جائے۔ بجلی کی قیمت کے لحاظ سے اِس عالمی فہرست کے ذریعے صرف بٹ کوائن ہی نہیں بلکہ برقی رو جیسی بنیادی و عمومی ضرورت کی اہمیت و قیمت کو بھی سمجھا جا سکتا ہے‘ جو ایک ضمنی پہلو ہے۔ ضروری نہیں کہ کسی ملک میں بجلی کا استعمال صرف اور صرف ’بٹ کوائنز‘ کے حصول ہی کے لئے کیا جائے جبکہ جدید ٹیکنالوجی تک رسائی کے لئے بجلی کی قیمت کس قدر اہمیت کی حامل ہے اِس کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں رہا۔ٹیکوپیڈیا نامی ادارے کی جانب سے چھبیس جولائی دوہزارتیئس کے روز جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں زیادہ سے زیادہ بٹ کوائنز کی تعداد 2 کروڑ 10 لاکھ ہے جن میں سے ’1 کروڑ 94 لاکھ (19.4 ملین)‘ کوائنز فعال ہیں۔ بٹ کوائنز کی زیادہ سے زیادہ تعداد تلاش کر لی گئی ہے تاہم اندازہ ہے کہ 19 لاکھ 30 ہزار (1.93 ملین) بٹ کوائنز اب بھی موجود ہیں جنہیں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ مارچ 2023ءمیں ’بٹ اِنفو چارٹس‘ نامی ادارے کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق دنیا میں 8 لاکھ 27 ہزار افراد ایسے ہیں جو ’ایک بٹ کوائن‘ کی ملکیت رکھتے ہیں اور اُن کے نام اور پتے بٹ کوائن ملکیت کے ساتھ محفوظ ہیں۔ کم سے کم ایک بٹ کوائن رکھنے والوں کی یہ تعداد بٹ کوائن کے کل صارفین کی تعداد کا قریب ’ساڑھے چار فیصد‘ ہے اور اِس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں صرف انفرادی حیثیت ہی سے نہیں بلکہ حکومتیں بھی زیادہ سے زیادہ بٹ کوائنز حاصل کرنے میں سرمایہ کاری کئے ہوئے ہیں اور اگرچہ دنیا کے صرف 2 ممالک ایسے ہیں جو بٹ کوائن کو باقاعدہ کرنسی کے طور پر تسلیم کرتے ہیں اور وہاں بٹ کوائن میں خریدوفروخت یا تجارت (ٹریڈ) ہوتا ہے۔ یہ دو ممالک ایلسلواڈو اور سنٹرل افریقن ری پبلک ہیں جنہوں نے سال دوہزاربائیس کے وسط میں اِن کرنسیوں کو قانونی حیثیت دی تھی۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں ’بٹ کوائن‘ یا دیگر کرپٹو کرنسیز کی خریدوفروخت یا اِن کا استعمال کرتے ہوئے تجارت غیرقانونی ہے لیکن بہت سے ادارے چوری چھپے ’بٹ کوائن‘ کی خرید و فروخت کرتے ہیں۔ مئی دوہزارتیئس میں اُس وقت کی وفاقی وزیر برائے خزانہ (فنانس و ریونیو) عائشہ غوث پاشا نے قانون ساز ایوان بالا (سینیٹ) کی سٹیڈنگ کمیٹی برائے فنانس کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ”پاکستان میں کبھی بھی ’بٹ کوائنز‘ قانونی کرنسی نہیں رہی۔“ بٹ کوائن کی صورت خزانے کی تلاش کرنے والے نوجوانوں کو 2 تاریک پہلوو¿ں پر توجہ رکھنی چاہئے کہ ایک تو بٹ کوائن کی تلاش (مائننگ) پر بجلی کا خرچ اور ناکامی کے امکانات زیادہ ہیں اور دوسرا یہ عمل ’غیرقانونی‘ ہے۔ مستقبل میں معاشی سرگرمیاں آن لائن یعنی انٹرنیٹ پر منحصر ہوں گی جن میں صرف بٹ کوائن ہی نہیں بلکہ دیگر کرپٹو کرنسیز کا استعمال بھی ہو رہا ہوگا اِس لئے دانشمندی اِسی میں ہے کہ پاکستان میں ’کرپٹو کرنسی‘ کے کاروبار کو قانونی شکل دی جائے اور بالخصوص ٹیکنالوجی کی تعلیم سے جڑے اداروں میں ’کرپٹو کرنسی‘ کے بارے میں پڑھایا جائے تاکہ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ اندرون ملک ملازمتیں کم اور معاشی حالات پریشان کن ہیں تو ”معلوم خزانے کی تلاش‘ میں راتوں رات اَمیر بننے کا خواب دیکھنے والے نوجوان گمراہ نہ ہوں۔