سولر سسٹم : نیٹ میٹرنگ

سورج کی روشنی سے بجلی بنانے کے لئے جن خصوصی آلات کا استعمال کیا جاتا ہے اُن کے مجموعے کو ’سولر سسٹم‘ کہتے ہیں۔ اِن میں سولر پینلز (جنہیں عرف عام میں شیشہ کہا جاتا ہے)‘ انورٹرز‘ بیٹریز‘ آسمانی بجلی سے محفوظ رکھنے کا نظام (اَرتھنگ) اور چونکہ یہ سارا معاملہ برقی رو کا ہے تو ایک حفاظتی نظام (سیفٹی سسٹم) میں سرمایہ کاری کی جاتی ہے۔ زیادہ مقدار میں بجلی بنانے والے سولر سسٹم لگانے والوں کی اکثریت ’نیٹ میٹرنگ‘ کا بھی انتخاب کرتی ہے جسے ’گرین میٹر‘ بھی کہا جاتا ہے اور اِس سہولت کے ذریعے کوئی بھی سولر سسٹم صارف اپنی ہاں بننے والی اضافی شمسی توانائی کے یونٹ واپڈا کو دے سکتا ہے جس کے بدلے میں اُسے پیسے تو نہیں ملتے البتہ استعمال شدہ یونٹوں میں رعایت ضرور ملتی ہے۔ اِس سلسلے میں سب سے پہلی غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ واپڈا کسی بھی صارف کے سولر سسٹم سے حاصل کی جانے والی بجلی کی قیمت ادا نہیں کرتا بلکہ نہایت ہی کم قیمت پر یونٹس کے بدلے اُسے ماہانہ بل میں رعایت دیتا ہے‘ جو اپنی جگہ معنی رکھتی ہے اور کچھ نہ کچھ بچت بھی بہرحال بچت ہی ہوتی ہے۔سولر سسٹم خریدنے کے لئے جب کوئی صارف مارکیٹ جاتا ہے تو اُس کا واسطہ جن دکانداروں سے پڑتا ہے وہ اُسے اُنہی آلات کی تعریف و خصوصیات میں الجھا دیتے ہیں جو اُن کے پاس موجود ہوتے ہیں۔ تو کسی سولر سسٹم کے خریدار کو سب سے پہلا کام یہ کرنا ہے کہ وہ کسی دکاندار کے کہنے میں نہ آئے بلکہ مارکیٹ اور اگر ممکن ہو کسی دوسرے شہر سے بھی آلات کی قیمتیں معلوم کر لے۔ خریداری سے پہلے یہ بات ذہن میں رکھیں کہ سولر پینل بنانے والی 10کمپنیوں (جنکو‘ لونگی‘ کینیڈین سولر‘ جے اے سولر‘ رایزن سولر‘ پیناسونک سولر‘ سن ٹیک سلولر‘ ٹرینہ سولر‘ کیو سیلز سولر اور اے اِی سولر) کی پاکستانی مارکیٹ میں ساکھ اچھی ہے۔ اِن دس کمپنیوں کی فہرست مرتب کرتے ہوئے بالترتیب بہترین کمپنی سے آغاز کیا گیا ہے یعنی لونگی (Longi) کے سولر پینلز دیگر سبھی برانڈز سے بہتر و پائیدار پائے گئے ہیں۔ تو پہلی بات یہ ہے کہ سولر آلات کی طرح جب آپ کسی سولر ڈیلر سے ’نیٹ میٹرنگ‘ کے بارے میں پوچھیں گے تو جو ڈیلر ’نیٹ میٹرنگ‘ کی سہولت دیتے ہیں وہ تو اِس کی تعریف کریں گے لیکن جن کے پاس ’نیٹ میٹرنگ‘ کے لئے درکار معیاری آلات اور اِس کی تنصیب کے لئے تجربہ کار افرادی قوت موجود نہیں ہو گی وہ ’نیٹ میٹرنگ‘ کو بے سود (بیکار) قرار دیں گے لہٰذا یہاں بھی صارف کو متذبذب (ڈبل مائنڈ) نہیں ہونا۔ نیٹ میٹرنگ کا اگرچہ فائدہ کم ہے لیکن اِس کا بہرحال فائدہ ہے اور سولر سسٹم میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اِس کا لازماً انتخاب کرنا چاہئے۔نیٹ میٹرنگ (گرین میٹر) لگوانے کے خواہشمند صارف کو چاہئے کہ وہ کم سے کم ’5 کلوواٹ‘ کا سولر سسٹم لگوائیں۔ اِس سے کم ایک یا تین کلوواٹ کا سولر سسٹم نیٹ میٹرنگ کے معیار پر پورا نہیں اُترے گا لیکن اگر کسی وجہ سے نیٹ میٹرنگ نہیں کروانی تو پھر پانچ یا اِس سے زیادہ کلوواٹ کا سولر سسٹم لگانے کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ چند سولر پینلز اور ایک دو بیٹریوں سے بھی سستی شمسی توانائی کے فوائد حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ آسان زبان میں کہا جائے تو کوئی بھی سولر سسٹم جو دن کے اوقات میں بجلی بنائے گا وہ ’واپڈا‘ کے سسٹم میں چلی جائے گی اور سورج غروب ہونے کے بعد جب سولر سسٹم بجلی نہیں بنا رہا ہوگا تب ’واپڈا‘ کی بجلی استعمال ہوگی اور یوں مہینے کے آخر میں جمع منفی کرنے کے بعد بجلی کے بل سے یونٹ وہ تمام یونٹ منہا ہو جائیں گے جو کسی صارف نے نیٹ میٹرنگ کے عوض استعمال کئے بلکہ اگر واپڈا کو زیادہ یونٹ دیئے گئے ہیں اور واپڈا سے کم یونٹ لئے گئے ہیں تو بجلی کا بل منفی (کریڈٹ) میں آئے گا یعنی ہر ماہ صارف کے یونٹ واپڈا کے ذمے بڑھتے چلے جائیں گے۔ یہی نیٹ میٹرنگ کا سب سے بڑا فائدہ ہے کہ جب بالخصوص گرمی کے لمبے دنوں میں سولر سسٹم زیادہ بجلی پیدا کر رہا ہوتا ہے اور اگر وہ زیادہ بجلی واپڈا کو فروخت نہیں کی جاتی تو یہ ضائع چلی جائے گی اور شام کے اوقات میں ’مفت بجلی‘ کا فائدہ اُٹھانا ممکن نہیں ہوگا لہٰذا سولر سسٹم اُسی سے لگوائیں جو نیٹ میٹرنگ کی سہولت فراہم کرنے کے لئے مجاز ڈیلر ہے۔رواں برس (دوہزارتیئس) میں ’نیپرا‘ نے نیٹ میٹرنگ سے متعلق قواعد میں تبدیلی کی ہے اور اب نیٹ میٹرنگ سے وصول ہونے والے یونٹس کی ادائیگی مہینہ وار نہیں بلکہ سہ ماہی (کواٹر) بنیادوں پر کی جاتی ہے اور اِس میں ’پیک آورز‘ اور ’آف پیک آورز‘ کا فارمولہ بھی وضع کیا گیا ہے جس میں اگرچہ صارف سے زیادہ حکومتی ادارے کے مفاد کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے لیکن پاکستان میں کسی حکومتی ادارے سے کچھ بھی حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا لہٰذا تھوڑے کو بھی غنیمت سمجھنا چاہئے۔ واپڈا کسی نیٹ میٹرنگ رکھنے والے صارف سے تین مرحلوں سے معاملہ کر رہا ہوتا ہے۔ پہلے آن گریڈ‘ دوسرا آف گریڈ اور تیسرا ٹیکسز کی صورت فارمولہ اپلائی کیا جاتا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ بجلی کے بل میں ٹیلی ویژن یا دیگر یوٹیلیٹز اور جتنے بھی ٹیکس آتے ہیں وہ بہرصورت وصول کئے جاتے ہیں اور نیٹ میٹرنگ کے یونٹس سے اُن کی وصولی بھی کی جاتی ہے اور اِن تینوں مراحل کے تین الگ الگ نرخ ہیں۔ پہلے مرحلے کا ریٹ 34 روپے یونٹ ہے۔ دوسرے مرحلے کا ریٹ 42 روپے یونٹ ہے اور تیسرے مرحلے میں ٹیکسوں کا کوئی شمار نہیں کیونکہ یہ وقت کے ساتھ کم زیادہ ہوتے رہتے ہیں۔ یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ ’نیپرا‘ سولر سسٹم سے پیدا ہونے والی بجلی بذریعہ ’نیٹ میٹرنگ‘ فروخت کرنے والوں کو ’نجی بجلی گھروں‘ کے طور پر شناخت کرتا ہے اور اِن سے قریب 20 روپے فی یونٹ کے حساب سے بجلی خریدتا ہے۔ الگ موضوع ہے کہ سستی بجلی خرید کر مہنگی داموں فروخت کی جاتی ہے لیکن اِس کا فائدہ سولر سسٹم لگانے والوں کو نہیں دیا جاتا تو اِس کا مختصر جواب یہ ہے کہ واپڈا کے لائن لاسیز (بجلی کی چوری اور ترسیل میں ضائع ہونے کے تناسب) کو بھی صارفین ہی سے پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لہٰذا نیٹ میٹرنگ لگوانے والے صارفین یہ بات ذہن نشین رکھیں کہ واپڈا کو فروخت کی جانے والی بجلی 19 روپے 95 پیسے فی یونٹ حساب ہوگی۔ واپڈا ’آف پیک ریٹ‘ کے مطابق بجلی خریدتا بھی ہے اور اِسی ’آف پیک ریٹ‘ کے مطابق بجلی سولر صارفین کو فروخت بھی کرتا ہے اور یہ بات بھی ذہن میں رکھیں کہ واپڈا یونٹ کے بدلے یونٹ اور یونٹ کے عوض ایک خاص نرخ لگاتا ہے اِس میں کسی بھی صارف کو چاہے اُس کا سولر سسٹم پانچ کلو واٹ کا ہو یا پندرہ بیس کلوواٹ کا اُسے ٹیکسوں سے چھوٹ نہیں دی جاتی۔ اِس تکنیکی معاملے کی وضاحت اور احاطہ کسی الگ مضمون میں کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ سولر صارف کو سمجھنا ہو گا کہ وہ ’واپڈا‘ پر ٹیکس نہیں لگا سکتا بلکہ ’واپڈا‘ کو جس قدر بھی ٹیکس لگیں اُن کی ادائیگی کرنے کا ذمہ دار ہوگا لہٰذا زیادہ بجلی فروخت کرنے سے ہی فائدہ ممکن ہے اور اِس کے لئے کم سے کم پانچ یا اِس سے زیادہ کلوواٹ کا سولر سسٹم لگانے ہی میں دانشمندی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ 10 کلوواٹ کا سولر سسٹم ہر ماہ اوسطاً 1200 یونٹ بجلی واپڈا کو دیتا ہے تو فارمولہ ایسا بنایا گیا ہے کہ دس کلوواٹ کے صارف کا بجلی صرف اُسی صورت ’صفر‘ ہوگا جبکہ اُس کے پاس مزید بارہ سو یونٹ بھی ہوں کیونکہ یہاں فارمولہ ’آف پیک‘ اور ’آن پیک‘ بشمول ٹیکسیز رکھا گیا ہے جس کا پلڑا صارف سے زیادہ واپڈا کے مفاد میں جھکا ہوا ہے۔ آسان ترین بات اور لب لباب یہ ہے کہ اگر کسی صارف کی اپنی ضرورت 1200 یونٹ ماہانہ ہے تو اُسے 2400 یونٹ ماہانہ بجلی پیدا کرنے والا سولر سسٹم لگوانا چاہئے اور صرف اِسی صورت اُس کے بجلی کا بل تمام تر فارمولوں اور ٹیکسوں جیسے قواعد و ضوابط سے گزرتے ہوئے ’صفر (زیرو)‘ ہو سکتا ہے۔ سولر سسٹم سے چوبیس سو یونٹ بجلی ماہانہ حاصل کرنے کے لئے 20کلوواٹ کے سسٹم کی ضرورت ہوگی‘ جس کی موجودہ قیمت قریب بیس لاکھ روپے ہے۔ کسی صارف کے اپنی ضرورت کتنی ہوتی ہے اِس بارے میں سال بھر کی استعمال شدہ بجلی کو دیکھ کر اندازہ لگایا جاتا ہے اور ایک جتنے رقبے کے گھر اور ایک جتنے گھر کے افراد کسی دوسرے کے مقابلے کم یا زیادہ بجلی استعمال کر سکتے ہیں۔ بنیادی بات یہ ہے کہ سولر سسٹم لگانے کے بعد بھی ’بجلی کی بچت‘ کرنا ہوگی اور بجلی کا ضیاع بھی اسراف ہی کے زمرے میں شمار ہوگا۔