پوری دنیا میں انسانیت سے پیار کا دن منانے کے تیسرے روز پاکستان میں خدمت خلق کا ایک درخشاں باب رقم ہوا۔بٹگرام کے ایک دور افتادہ گاوں سے سات بچے سکول جا رہے تھے جن میں سے تین بچے نویں جماعت کے اپنے نتائج معلوم کرنے سکول جارہے تھے ان طلبا کے ساتھ گاﺅں کا ایک دکاندار بھی نجی چیئر لفٹ میں بیٹھا ‘بٹگرام‘پالس‘دربند‘کوہستان‘شانگلہ‘تورغر اور دیگر پہاڑی علاقوں کے لوگ ایک گاﺅں سے دوسرے گاﺅں جانے کے لئے دشوار گزار اور گہری کھائیاں عبور کرنے کے بجائے دیسی ساختہ چیئر لفٹ کو ترجیح دیتے ہیں۔شومئی قسمت تھی کہ اس دن چیئر لفٹ کی دو رسیاں اس وقت ٹوٹ گئیں جب چیئر لفٹ نے آدھا فاصلہ طے کیا تھا۔لفٹ اب ایک رسی کے سہارے زمین سے 600 فٹ کی بلندی پر معلق ہوگئی۔ یہ واقعہ صبح پونے
آٹھ بجے رونما ہوا۔خبر سوشل میڈیا پر ساڑھے آٹھ بجے پھیل گئی۔پورا پاکستان الرٹ ہو گیا ۔ آرمی اور ایوی ایشن کے چار ہیلی کاپٹر وہاں پہنچ گئے سپیشل سروسز گروپ کے کمانڈوز اپنے سربراہ کی معیت میں وہاں پہنچے اور ریسکیو آپریشن کی تیاریاں شروع کردیں۔یہ ایک مشکل ریسکیو آپریشن تھا ہیلی کاپٹر ہوا میں معلق ایک تار کی وجہ سے متاثرین کے قریب نہیں جاسکتا تھا۔ہوا بھی تیز چل رہی تھی۔ہیلی کاپٹرنے جب معلق لفٹ کے قریب جانے کی کوشش کی تو آٹھ مسافروں سے لدا لفٹ جھولنے لگا۔کمانڈوز نے بڑی مشکل سے نو گھنٹے بعد لفٹ میں پھنسے ہوئے لوگوں تک خوراک اور ادویات پہنچائیں اور ایک بچے کو ریسکیو کرلیا گیا۔اس دوران شام کا اندھیرا چھا گیا اور فضائی آپریشن ممکن نہیں تھا اس لئے ہیلی کاپٹر واپس بھیج دیئے گئے۔بٹگرام، دربند اور شانگلہ کے مقامی ماہرین کی خدمات حاصل کر لی گئیں۔ایک چھوٹی لفٹ کے ذریعے پھنسے ہوئے بچوں تک پہنچنے کی کوشش کی گئی اور انتہائی خطرناک آپریشن کے بعد رات گیارہ بجے تمام آٹھ افراد کو بحفاظت معلق لفٹ سے اٹھا کر زمین پر اتار دیا
گیا۔اس آپریشن میں پاک فوج کے کمانڈوز کے علاوہ مقامی پولیس، انتظامیہ کے اہلکاروں، ریسکیو ون ون ٹو ٹو کے بہادر نوجوانوں، لفٹ کے مقامی ماہرین صہیب خان، علی خان نے حصہ لیا۔بچوں کے لفٹ میں پھنسنے کی اطلاع پا کر ضلع بٹگرام کے علاوہ پالس‘دربند‘ مانسہرہ، تورغر شانگلہ اور کوہستان سے بھی سینکڑوں افراد وہاں پہنچ گئے تھے اور وہ تمام بچوں کو ریسکیو کئے جانے تک وہاں موجود رہے۔اس ریسکیو آپریشن میں کمانڈوز پولیس اور ریسکیو اہلکاروں سمیت جس جس نے حصہ ڈالا وہ لائق صد تحسین و آفرین ہے‘تاہم تین مقامی کاریگروں نے رضاکارانہ طور پر قیمتی انسانی جانوں کو بچانے کےلئے جو قربانی دی وہ حیرت انگیز اور ناقابل یقین ہے۔وہ بلاشبہ قومی اعزازات کے مستحق ہیں۔ان بہادر رضاکاروں پر پوری قوم کو بجاطور پر فخر ہے۔