سورج کی روشنی (شمسی توانائی) سے بجلی بنانے کا نظام ’سولر سسٹم‘ کہلاتا ہے اور یہ سسٹم کم یا زیادہ (حسب ضرورت) بجلی پیدا کر سکتا ہے جیسے جیسے زیادہ بجلی پیدا کرنے والا نظام نصب کیا جائے گا ویسے ویسے اُس کی قیمت بھی بڑھتی چلی جائے گی۔ پانچ دس مرلے کے گھر میں رہنے والے ایک صارف یا دکاندار کو کتنے کلوواٹ کا سولر سسٹم لگانا چاہئے جو اُس کی موسم گرما اور موسم سرما کی ضروریات پوری کرے۔ یہاں موسم گرما اور موسم سرما کو اِس لئے الگ الگ بیان کیا گیا ہے کیونکہ موسم گرما کے دوران سورج کی روشنی زیادہ گھنٹے دستیاب ہوتی ہے جبکہ موسم سرما کے دوران سورج کی روشنی اور اِس روشنی کی فراہمی نسبتاً کم گھنٹوں پر مشتمل ہوتی ہے تو سولر سسٹم لیتے ہوئے صرف گرمی کے دنوں کا خیال ہی نہ کیا جائے بلکہ موسم سرما کا بھی سوچا جائے جب زیادہ تر مطلع ابرآلود رہنے اور پھیکی پھیکی دھوپ کی وجہ سے سولر سسٹم سے حاصل ہونے والی توانائی کی مقدار بھی کم ہو جاتی ہے۔ سولر سسٹم خریدتے وقت جو سب سے بڑی اور عمومی غلطی کی جاتی ہے وہ یہ ہوتی ہے کہ ایک کلوواٹ یا اِس سے بھی کم کا سولر سسٹم خرید لیا جاتا ہے اور زیادہ سرمایہ کاری مہنگی بیٹریوں میں کی جاتی ہے تاکہ سورج غروب ہونے کے زیادہ دیر بعد تک بجلی ملتی رہے لیکن یہ سراسر غلط طریقہ ہے۔ چھوٹے پیمانے یعنی کم سے کم کسی بھی گھر اور کاروبار (دکان یا دفتر) کے لئے ’3 کلوواٹ‘ کا سولر سسٹم لینا چاہئے تین کلوواٹ کے سولر سسٹم کا مطلب یہ ہے کہ یہ نظام صبح 9 بجے سے شام 5 بجے تک ’15 یونٹ‘ بجلی فراہم کرے گا۔ پندرہ یونٹ بجلی یومیہ کا مطلب ’ماہانہ 450 یونٹ بجلی‘ ہو گی جو کسی بھی گھر‘ دفتر یا دکان کی بنیادی ضروریات کے لئے اِسی قدر بجلی چاہئے ہوتی ہے ذہن نشین رہے کہ ’سولر سسٹم‘ سے بجلی ہر دن حاصل ہوتی ہے اور ہر دن ہی اُس کا استعمال کرنا ہوتا ہے اِس لئے ’بجلی کی بچت‘ سے کسی بھی سولر سسٹم کو زیادہ لمبے عرصے تک کارآمد رکھا جا سکتا ہے۔ ’بجلی کی بچت‘ کا مطلب یہ ہے کہ حسب ضرورت بجلی کے بلب جلائے جائیں اور کم سے کم پنکھے و دیگر برقی آلات کا استعمال کیا جائے تو کسی بھی ایک دن کے لئے پندرہ یونٹ بجلی کافی سے زیادہ ثابت ہو سکتی ہے۔ جب ہم ’تین کلوواٹ‘ کے سولر سسٹم کی بات کرتے ہیں تو اِس کا مطلب ایک متوسط آمدنی والے خاندان کو واپڈا سے حاصل ہونے والی بجلی کی فی یونٹ قیمت اور بجلی کے بل پر مختلف قسم کے ٹیکسیز میں آئے روز اضافے جیسے تفکرات سے چھٹکارہ دلانا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ تین کلوواٹ کے سولر سسٹم پر ایک عدد ائرکنڈیشن بھی چلایا جا سکتا ہے اور بہتر یہی ہوگا کہ دن کے اوقات میں ایک یا ڈیڑھ ٹن کا ’انورٹر ائرکنڈیشنر‘ استعمال کیا جائے۔ عموماً گھروں میں نصب پرانے ونڈو یا سپلٹ ائرکنڈیشنروں کو زیادہ بجلی کی ضرورت ہوتی ہے‘ جنہیں تین کلوواٹ کے سولر سسٹم پر چلانے سے بجلی کے بل میں کوئی خاص فرق نہیں آئے گا۔ اس وقت الیکٹرانکس کی معروف کمپنیوں کی جانب سے مختلف رعایتی سکیمیں بھی جاری ہیں ان سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پرانے برقی آلات کو سولر سسٹم سے چلانے پر بجلی زیادہ مقدار میں خرچ ہو گی جسے سولر سسٹم یا واپڈا کی بجلی سے پورا کرنے کی صورت سولر سسٹم کے فوائد کم ہوتے چلے جائیں گے۔تین کلوواٹ کے سولر سسٹم کو لگانے کے لئے 545 واٹ کے 6 عدد سولر پینلز کی ضرورت ہوگی۔ اگست 2023ءسے ستمبر 2023ءکے درمیان فی کلوواٹ مارکیٹ ریٹ 75 روپے سے 95 روپے کے درمیان ہیں۔ ایک درمیانی کوالٹی کا قدرے معیاری اور درآمدی سولر سسٹم 80 روپے فی واٹ کے حساب سے فروخت ہو رہا ہے اور اِس لحاظ سے 545 واٹس کے درکار 6 سولر پینلز کی کل قیمت 2 لاکھ 61 ہزار روپے‘ سولر پینلز نصب کرنے کے لئے تین عدد اسٹینڈ (آہنی ڈھانچہ) 18 ہزار روپے‘ سولر پینلز سے انورٹر تک بچھائی جانے والی ایک خاص قسم کی تار (جسے عرف عام میں چھ ایم‘ ٹن کوٹٹیڈ‘ اور ڈبل انسولیٹیڈ کہا جاتا ہے) کی اوسط لمبائی کے لحاظ سے قیمت 6 ہزار روپے‘ سولر سسٹم اور انورٹر کے درمیان بجلی کا حفاظتی و ترسیلی نظام جسے ڈسٹری بیوشن بکس یا عرف عام میں ’ڈی بی بکس‘ کہا جاتا ہے کی قیمت 15 سے 22 ہزار روپے کے درمیان ہے (بائیس ہزار روپے کا مطلب ہے ہے کہ سب سے اچھے ’ڈی بی بکس‘ کا انتخاب کیا گیا ہے) اِسی طرح انورٹرز کی قیمت اِن کے ساختہ معیار اور خصوصیات (فنکشنز) کی وجہ سے ہوتا ہے۔ تین کلوواٹ کے لئے معیاری انورٹر کی قیمت ایک لاکھ سے ڈھائی لاکھ روپے کے درمیان ہے لیکن ڈیڑھ لاکھ میں بنیادی سہولیات والا معیاری (اچھا) انورٹر خریدا جا سکتا ہے‘ جس کی چھ ماہ سے ایک سال تک گارنٹی بھی مل سکتی ہے۔ سولر سسٹم کو سورج کے غروب ہونے کے بعد 6 سے 8 گھنٹے تک چلانے کے لئے درکار بیٹریوں کی قیمت ایک لاکھ تیس ہزار روپے ہو گی اور یوں یہ پورا سسٹم بنا انسٹالیشن چارجز (لگانے کی مزدوری) اور نقل و حمل کے اَخراجات ’6 لاکھ روپے‘ ہے۔ ’تین کلوواٹ‘ کے سولر سسٹم کو نصب کرتے ہوئے عموماً 2 غلطیاں کی جاتی ہیں۔ پہلی غلطی یہ کی جاتی ہے کہ ’سولر پینلز‘ کو آپس میں جوڑتے وقت اِن کے درمیان وقفہ نہیں رکھا جاتا اور اِن وزنی پینلز کو اِنہیں ایک دوسرے کے ساتھ بالکل جوڑ کر لگایا جاتا ہے جس کی وجہ سے ہوا اِن کے درمیان سے نہیں گزر سکتی۔ ذہن نشین رہے کہ 545 واٹ کے ایک سولر پینل کا اوسط وزن 27 سے 32 کلوگرام کے درمیان ہوتا ہے اور تین کلوواٹ کے سولر سسٹم کے لئے کل چھ سولر پینلز کی ضرورت ہوتی ہے۔ اصولاً سولر پینلز کو ساتھ ساتھ نصب کرتے ہوئے اِن کے درمیان چند سنٹی میٹرز کا فاصلہ رکھنا چاہئے تاکہ آندھی و طوفان کی صورت میں اُس ڈھانچے پر زیادہ زور نہ پڑے جن پر اِنہیں نصب کیا جاتا ہے اور چاہے چاہے یہ جتنا بھی مضبوطی سے نصب کئے گئے ہوں لیکن چونکہ موسمیاتی تبدیلیاں ظہورپذیر ہو رہی ہیں اِس لئے ہوا کی طاقت بہرحال کسی علاقے کی اوسط سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ دوسری غلطی سولر سسٹم سے آنے والی جمع اور منفی چارج والی تاروں کو آپس میں جوڑنے سے متعلق کی جاتی ہے۔ ہونا یہ چاہئے کہ دو دو پینلز کو آپس میں سیریز کر کے پیرالل (parallel) کنکشن کئے جائیں یعنی ایک پینل کے مثبت ٹرمینل کو دوسرے پینل کے منفی ٹرمینل سے لگا کر ایک جوڑا بنایا جائے۔ چھ پینلز کے اِس طرح سے تین جوڑے بن جائیں گے جس سے اِن تین جوڑوں کے ایک طرف تین مثبت اور دوسری طرف منفی ٹرمینلز ملیں گے۔ اِن تین مثبت ٹرمینلز کو ایک تار کے ساتھ جوڑ کر اور تین مثبت ٹرمینلز کو الگ سے ایک تار کے ساتھ جوڑ کر ’ڈی سی بریکیر‘ میں لگائیں اور ’ڈی سی بریکیر‘ سے مثبت و منفی تاروں کو ’ہائبرڈ انورٹر‘ کے ساتھ جوڑنے سے ’رابطہ (کنکشن)‘ مکمل ہو جائے گا جسے تکنیکی طور پر ’پیرالل سرکٹ کنکشن‘ کہا جاتا ہے لہٰذا جس تکنیکی ماہر کی بھی خدمات حاصل کی جائیں اُس سے پہلے ہی طے کر لیں کہ آپ کو ’پیرالل سرکٹ کنکشن‘ ہی لگوانا ہے۔ ڈی بی بکس کی 2 بنیادی بریکیرز ہوتے ہیں ایک سولر بریکر اور دوسرا بیٹری بریکر نصب کیا جاتا ہے‘ اِن کے علاو¿ہ وولٹیج کی مقدار جانچنے کے لئے مختلف میٹرز اور لائٹس بھی لگائی جا سکتی ہیں چونکہ سولر انسٹالیشن کے اخراجات ایک ہی مرتبہ ادا کرنا ہوتے ہیں اِس لئے بہتر ہے کہ ’ڈی بی بکس‘ میں تمام سہولیات والے آلات نصب کروائے جائیں جن کی لاگت چند ہزار روپے زیادہ ہو گی لیکن یہ اضافی سرمایہ کاری ایک طرح کا بیمہ ہو گی کہ اِس سے سولر سسٹم کی نگرانی‘ دیکھ بھال اور پائیداری میں اضافہ ہو جاتا ہے۔