پہلی بات : دس کلو واٹ (دس ہزار واٹ) کے ’سولر آن گرڈ سسٹم‘ کی پیداواری صلاحیت اِس قدر ہوتی ہے کہ یہ کسی بھی گھر کے بجلی بل کو ’صفر (زیرو)‘ کر سکتا ہے۔ دوسری بات : دس کلوواٹ کا ’آن گرڈ سسٹم‘ شمسی توانائی کا ایسا نظام ہوتا ہے جو بنا بیٹری چلتا ہے یعنی اِس کے اندر بیٹریوں کو لگانے کی ضرورت نہیں پڑتی اور اِس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ ’نیٹ میٹرنگ‘ کی وجہ سے یہ نظام دن کی روشنی سے بننے والی وہ اضافی بجلی جو گھر کے استعمال سے بچ جاتی ہے اُسے واپڈا کو فروخت کرتا رہتا ہے اور چونکہ یہ نظام ایک اوسط گھر کی ضرورت سے زیادہ بجلی بنا رہا ہوتا ہے اِس لئے اضافی بجلی واپڈا کے نظام میں خودبخود شامل ہوتی رہتی ہے۔ تیسری بات : شمسی توانائی میں دو طرح کی سوچ رکھنے والے سرمایہ کاری کرتے ہیں۔ پہلی سوچ یہ ہے کہ بجلی کا موجودہ بل کم ہو جائے جس کے لئے بچت کے ساتھ سولر سسٹم کا استعمال کیا جاتا ہے اور اِس سوچ کو رکھنے والوں کے لئے ’پانچ کلوواٹ‘ سسٹم کافی ہے جس کی کل لاگت کا تخمینہ دس سے بارہ لاکھ روپے ہے۔ دوسری سوچ رکھنے والوں کا ہدف یہ ہوتا ہے کہ اُن کا بجلی کا بل بالکل ختم (صفر) ہو جائے اور اُنہیں احتیاط سے بجلی استعمال کرنے کی ضرورت یا فکرمندی بھی نہ رہے تو اِس مقصد کے لئے ’دس کلوواٹ‘ کا سولر سسٹم لگایا جاتا ہے جس کی قیمت سولہ سے اٹھارہ لاکھ روپے ہے۔ تیسری بات: ایک‘ پانچ‘ دس یا اِس سے زیادہ کلو واٹ کے سولر سسٹمز لگانے والوں کو یہ بات دھیان میں رکھنی چاہئے کہ شمسی توانائی کا نظام اگرچہ کلوواٹ اور پیداواری صلاحیت کے اعتبار سے ناپ تول کر‘ پوری احتیاط (کیلکیولیشنز کے ساتھ) تشکیل و ترتیب دیا جاتا ہے لیکن چونکہ اِس سارے کے سارے نظام کا دارومدار سورج کی روشنی پر ہوتا ہے جو کم زیادہ ہوتی رہتی ہے تو اِسی لحاظ سے بجلی کی حاصل ہونے والی مقدار بھی توقعات سے کم یا زیادہ ہو سکتی ہے لہٰذا بجلی کے دیگر متبادل نظاموں (یو پی ایس‘ جنریٹرز) کی طرح یہ نظام بھی ’سوفیصدی‘ قابل اعتماد نہیں ہوتا البتہ بجلی کے متبادل نظاموں بشمول واپڈا کے مقابلے ”قابل بھروسہ“ ضرور ہوتا ہے۔ چوتھی بات : دس کلوواٹ کا سولر سسٹم لگانے کے 2 نمایاں (مثبت) پہلو ہیں۔ پہلا یہ کہ اِن میں توانائی ذخیرہ رکھنے کے لئے بیٹریز پر انحصار نہیں کرنا پڑتا اور بیٹریز کی زیادہ سے زیادہ عمر پانچ سال ہوتی ہے جس کے مکمل ہونے سے پہلے بھی لاکھوں روپے مالیت کی بیٹریاں تبدیل کرانے والوں کی مثالیں موجود ہیں۔ دوسرا نمایاں (مثبت) پہلو یہ ہے کہ دس کلوواٹ کے سولر انورٹرز دیگر انورٹرز کے مقابلے زیادہ پائیدار‘ فعال و مستعد اور کارکردگی کے لحاظ سے بہتر ہوتے ہیں۔ انہیں ایک خاص معیار (IPS-65) کو مدنظر رکھتے ہوئے بنایا جاتا ہے جس کا مطلب ہے یہ نمی‘ پانی اور گردوغبار سمیت موسمیاتی اثرات سے نسبتاً زیادہ محفوظ ہوتے ہیں اور شدید قسم کی گرمی میں بھی اِن کی کارکردگی و صلاحیت کم نہیں ہوتی۔ ساتھ ہی یہ سولر پینلز سے زیادہ توانائی ملنے کی صورت میں برداشت کی صلاحیت رکھتے ہیں جبکہ کم توانائی ملنے کی صورت میں کمی بیشی کو دور (ایڈجیسٹ) بھی کر سکتے ہیں۔ تیسری بات یہ ہے کہ اِن کی وارنٹی کم سے کم بھی پانچ سال ہوتی ہے اور کچھ ماڈلز کی وارنٹی اِس سے بھی زیادہ عرصے کے لئے دی جاتی ہے جو ظاہر ہے کہ اضافی اور نمایاں خصوصیت جبکہ دیگر انورٹرز کی وارنٹی ایک دو سال کی ہوتی ہے اور صارفین کی جانب سے اُن کی کارکردگی وقت کے ساتھ پہلے جیسی نہ ہونے کی شکایات سننے کو ملتی ہیں لہٰذا دانشمندی اِسی میں ہے کہ اگر جیب اجازت دے تو کم سے کم بھی دس کلوواٹ ہی کا سولر سسٹم لگانا
چاہئے کیونکہ جس طرح سولر پینلز کی وارنٹی پچیس سے تیس سال ہوتی ہے تو اِس کے ساتھ لگنے والے دیگر آلات بھی کی صلاحیت بھی اِسی نوعیت کی ہونی چاہئے کہ وہ پچیس تیس سال تک بنا مزید سرمایہ کاری کام کرتے رہیں۔ پانچویں بات : دس کلوواٹ کا سولر سسٹم اگر بیس برس بھی کارآمد رہے تو یہ ماہانہ سات ہزار روپے خرچ کے مساوی ہوگا جبکہ اِس دوران اپنی لاگت کے کئی و گنا زیادہ مالیت کی بجلی فراہم کر چکا ہوگا۔ چھٹی بات : دس کلوواٹ کے آن گرڈ سولر سسٹم کے ساتھ بیٹریاں لگائی جا سکتی ہیں۔ جن علاقوں میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کم یا زیادہ ہوتی ہے‘ وہاں اُس حساب سے بیٹریاں لگانا پڑیں گی تاکہ لوڈشیڈنگ کے دوران برقی آلات کام کرتے رہیں اور اِن کے چلنے میں کسی قسم کا خلل نہ آئے۔دس کلوواٹ کے سولر سسٹم کے لئے ’18 عدد‘ سولر پینلز کی ضرورت ہو گی چونکہ پینلز کی تعداد زیادہ ہے اِس لئے زیادہ طاقت والے پینلز کا انتخاب کیا جاتا ہے جیسا کہ 550 واٹ کے پینلز کا۔ اِن سولر پینلز کو نصب کرنے کے 9 عدد فریمز (ڈھانچوں) کی ضرورت ہوگی۔ 550 واٹ کا ’درجہ¿ اوّل (جسے تکنیکی طور پر ’ٹیئر ون‘ کہا جاتا ہے)‘ کا پینل 95 روپے فی کلوواٹ کے حساب سے فروخت کیا جا رہا ہے لیکن اگر ڈیلر سے گفت و شنید کی جائے تو کچھ رعایت ہو سکتی ہے لیکن کوشش کی جائے یہ رعایت پانچ دس روپے فی کلوواٹ کی صورت تقاضا کی جائے۔ پینل کی مجموعی قیمت کے لحاظ سے سودا بازی نہ کی جائے البتہ اگر ایسا کرنا خلاف مزاج ہو تو جان لیجئے کہ (اگست 2023ءکے آخری ہفتے میں) پانچ سو پچاس واٹ کے ایک سولر پینل کی قیمت ساڑھے باون ہزار روپے ہے لیکن تھوڑی سی محنت (بارگین) کے ساتھ یہ باآسانی پچاس ہزار روپے یا اِس سے بھی کم قیمت میں مل سکتا ہے۔ عموماً 18 سولر پینلز کی قیمت 9 لاکھ 40 ہزار روپے بتائی جاتی ہے۔ سولر پینلز کی طرح اِنہیں نصب کرنے والے فریمز (آہنی
ڈھانچے) کا معیار بھی بہت معنی رکھتا ہے۔ مارکیٹ میں فی فریم چھ ہزار روپے سے لے کر ساڑھے سات ہزار روپے قیمت بتائی جاتی ہے جس کی مکمل لاگت ساٹھ سے ستر ہزار روپے بنتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ درجہ اول (ٹیئر ون) کے سولر پینلز کی وارنٹی (خراب نہ ہونے کی ضمانت) بارہ سال ہوتی ہے جبکہ اِن کے کام کرنے کی عمر پچیس سے تیس سال ہوتی ہے۔ وارنٹی اور کام کرنے کی صلاحیت دو الگ الگ پیمانے ہوتے ہیں اور ایک مرتبہ اچھی طرح نصب کئے جانے والے سولر پینلز کو پچیس تیس سال کچھ نہیں ہوتا لیکن اگر اُن سے چھیڑ چھاڑ نہ کی جائے۔دس کلوواٹ سسٹم کے لئے انورٹر بھی جاندار ہونا چاہئے۔ اِس مقصد کے لئے مارکیٹ میں مقبول ترین انورٹرز میں گرو واٹ (Growatt) اور سولیکس (Solex) پائیداری کے لحاظ سے پسند کئے جا رہے ہیں جن کی قیمت قریب 3 لاکھ روپے تک ہے لیکن یہ قیمتیں ڈالر کی روپے کے مقابلے قدر میں کمی بیشی کی وجہ سے کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے البتہ یہ کمی بیشی چند ہزار روپے سے زیادہ کی نہیں ہونی چاہئے۔ اگر کوئی دکاندار (سولر سسٹم ڈیلر) ڈالر کے فرق کی بنیاد پر پچاس ہزار یا لاکھ روپے زیادہ مانگ رہا ہے تو درحقیقت وہ غلط بیانی کر رہا ہے ‘سولر سسٹم کسی بھی صلاحیت کا ہو‘ وہ کئی برقی آلات کو آپس میں جوڑ کر بنایا جاتا ہے اور اِس جوڑنے کے عمل کے لئے لچک دار (فلیکسیبل) ’ڈی سی تار‘ کی ضرورت ہوتی ہے جو سولر پینلز کو آپس میں جوڑنے اور پھر اُنہیں انورٹرز کے ساتھ منسلک کرنے کے لئے ضرورت ہوتی ہے اور اوسطاً ”80 سے 90 ہزار روپے“ اِس خصوصی قسم کی تار کا خرچ ہوتا ہے۔ اِس تار کے علاوہ اے سی اور ڈی سی بریکٹرز (SPDs) یعنی سرج پروٹیکشن ڈیوائسز‘ فیوز اور ڈسٹری بیوشن (DB) بکس کی ضرورت پڑے گی جن کی مجموعی لاگت 70 سے 80ہزار روپے کے درمیان ہوتی ہے اور اِس میں تاروں کو چھپانے والے ڈاکس‘ فلیکسیبل پائپ‘ نٹ‘ بولٹ‘ پیچ‘ راولبولٹ وغیرہ شامل ہوتے ہیں اور دس کلوواٹ کا سولر سسٹم نصب کرنے کی مزدوری (انسٹالیشن چارجز) پچاس سے اَسی ہزار روپے مطالبہ کئے جاتے ہیں۔ ذہن نشین رہے کہ کوئی تجربہ کار اور ماہر کاریگر اگرچہ زیادہ پیسوں کا مطالبہ کر رہا ہوتا ہے لیکن اُس کے ہاتھ کی صفائی اور سولر سسٹم کو نفاست سے لگانے کی وجہ سے اِس نظام کی عمر میں اضافہ ہو جاتا ہے لہٰذا ہر چیز میں بارگین کرنی چاہئے لیکن انسٹالیشن چارجز فراخ دلی سے ادا کرنے ہی میں دانشمندی ہے کہ اگر کوئی ہنرمند اپنی مزدوری سے خوش ہوگا تو یقینا وہ آپ کے وسائل کی بچت اور آپ کی سمجھ یا معلومات میں نہ آنے والے پہلوو¿ں کا بھی باریک بینی اور مہارت سے احاطہ کرے گا۔ ’آن گرڈ سولر سسٹم‘ کو لگانے کے لئے واپڈا کی جانب سے ’ارتھنگ‘ کی شرط رکھی گئی ہے جس کے جملہ اخراجات بمعہ مزدوری 80 سے 90 ہزار روپے آتے ہیں اور یہ لاگت ایک لاکھ روپے یا اُس سے بھی زیادہ ہو سکتی ہے اگر زیرزمین سے سولر انورٹر کا فاصلہ زیادہ رکھا جائے اور نہایت ہی اعلیٰ معیار کی ارتھ کیبل (تار) استعمال کی جائے۔ اِسی طرح نیٹ میٹرنگ لگانے کا خرچ ایک لاکھ روپے تک ہے۔ یوں مجموعی طور پر دس کلوواٹ کا بنیادی سولر سسٹم اٹھارہ سے بیس لاکھ روپے جبکہ چند اضافی خصوصیات کے لئے مزید آلات کی تنصیب کے ساتھ اِس کی قیمت اکیس سے بائیس لاکھ روپے تک جا پہنچے گی اور یہ سسٹم ہر دن کم سے کم اور اوسطاً 40 یونٹ یعنی ماہانہ 1200 یونٹ بجلی فراہم کرے گا اور اگر آسان الفاظ میں بات کی جائے تو دس کلوواٹ طاقت اور بیس لاکھ روپے مالیت کا سولر سسٹم ہر مہینے ساٹھ ہزار روپے کی بجلی فراہم کرے گا جو قطعی ’گھاٹے کا سودا‘ نہیں ہے۔