سورج کی روشنی (شمسی توانائی) سے بجلی حاصل کرنے کے نظام (سولر سسٹم) کی دو بنیادی اقسام ’آن گرڈ‘ اور ’ہائبرڈ‘ میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا آسائش نہیں بلکہ ضروری (لازم) ہو گیا ہے کیونکہ جماعت اسلامی پاکستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر مشتاق احمد نے کہا ہے کہ ”ملکی و غیرملکی معاہدوں کی وجہ سے پاکستان میں بجلی کی قیمت کو مزید بڑھایا جائے گا اور آئندہ ماہ (ستمبر 2023ئ) میں بجلی کی موجودہ فی یونٹ قیمت 50 روپے سے 90 روپے فی یونٹ کر دی جائے گی۔“ ایک ایسی صورتحال میں جبکہ بجلی کی فی یونٹ قیمت سے زیادہ اُس پر مختلف قسم کے محصولات (ٹیکسز) عائد ہیں اور عوام کی فریاد حتیٰ کہ احتجاج کا بھی خاطرخواہ نتیجہ نہیں نکل رہا تو آمدنی کے لحاظ سے متوسط اور خوشحال گھرانوں کے لئے یہی مناسب وقت ہے کہ وہ کسی کاروبار کی طرح ’سولر سسٹم‘ میں سرمایہ کاری کریں اور نہ صرف اپنے گھر کی بجلی ضروریات شمسی توانائی سے پورا کریں بلکہ بجلی کو فروخت کر کے بھی ’سولر سسٹم‘ کی لاگت بمعہ منافع وصول کی جا سکتی ہے لیکن اِس کے لئے کم سے کم 15 کلوواٹ کا سولر سسٹم خریدنا پڑے گا۔’آن گرڈ‘ سولر سسٹم اِس لئے لگایا جاتا ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ بجلی بل میں بچت ہو جبکہ ’ہائبرڈ (آف گرڈ)‘ سولر سسٹم کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوڈشیڈنگ کے اوقات میں بھی برقی آلات کام کرتے رہیں اِس لحاظ سے سولر سسٹم کا انتخاب کرنے والوں کو اپنے علاقے میں برقی رو کی فراہمی کے نظام کو دیکھنا ہوتا ہے کہ بجلی کی لوڈشیڈنگ کا سلور سسٹم سے توڑ کیسے کیا جائے لیکن کئی ایسے علاقے اور بالخصوص ہاو¿سنگ سوسائٹیز ہیں جہاں بجلی کی لوڈشیڈنگ نہیں ہوتی تو ایسی صورت میں ’آن گرڈ سسٹم‘ ہی لگوانا چاہئے۔ آن گرڈ سولر سسٹم کی دیکھ بھال نہ ہونے برابر ہوتی ہے اور اِس میں بیٹریوں کی تبدیلی جیسے بڑے خرچ کو ہر چند برس بعد دہرانے کی ضرورت بھی نہیں پڑتی اور اِس نظام کے لئے استعمال ہونے والے انورٹرز اور سولر پینلز بھی انتہائی پائیدار ہوتے ہیں لہٰذا ’آن گرڈ سسٹم‘ بہترین و محفوظ اور منافع بخش سرمایہ کاری ہے۔ پندرہ کلوواٹ سسٹم کے لئے بہتر انورٹرز وہی ہیں جن کی کارکردگی کو وائی فائی (Wifi) سے دیکھا (مانیٹر) کیا جا سکے اور ایسی بہت سی خوبیوں کے ساتھ ’گروواٹ (Growatt)‘ کا جدید ماڈل (15KTL3) بہترین انتخاب ہوگا جس کی قیمت ساڑھے تین لاکھ روپے کے لگ بھگ ہے۔ اِس انورٹر میں وائی فائی کے علاوہ اے سی‘ ڈی سی تحفظ کے آلات (SPDs) بھی لگے ہوئے ہیں تاہم بہتر یہی ہوگا کہ الگ سے بھی سرچ پروٹیکشن ڈیوائسیز لگائی جائیں۔ اِس انورٹر کی ایک خوبی یہ بھی اِسے دیگر انورٹرز سے بہتر انتخاب ثابت کرتی ہے اور وہ اِس کی موبائل فون ایپلی کیشن ہے جس کے ذریعے کسی بھی وقت بجلی کی پیداوار‘ استعمال اور واپڈا کو فروخت کی معلومات حاصل کی جا سکتی ہیں۔ اِس طرح کی معلومات کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ اگر سولر پینلز کسی وجہ سے کم توانائی جمع کر رہے ہیں تو اِس سے ہفتہ وار یا مہینہ وار کارکردگی کا موازنہ کیا جا سکے گا اور پینلز
میں موجود کسی خرابی کی فوری نشاندہی ممکن ہو گی چونکہ سولر سسٹم کے آلات وارنٹی کے ساتھ آتے ہیں اِس لئے وارنٹی کے عرصے میں اِن کی کارکردگی پر نظر رکھنی چاہئے۔ اگر کوئی انورٹر اضافی ارتھنگ کی سہولت دے تب بھی سولر سسٹم کے لئے الگ سے ارتھنگ کا نظام لگوانا پڑتا ہے جو ’نیٹ میٹرنگ‘ کے لئے لازمی ہے لیکن درست انورٹر کے انتخاب سے فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک کی بجائے ارتھ کے دو نظام بیک وقت کام کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ انورٹر اگرچہ پندرہ کلوواٹ کے سولر سسٹم کے لئے ہے لیکن یہ 22 کلوواٹ تک کے سولر پینلز سے آنے والی توانائی کو برداشت کر سکتا ہے اور اِسے لگانے سے ایک فائدہ یہ بھی ہوگا کہ اگر مستقبل میں مزید سولر پینلز کا اضافہ کرنا چاہیں تو بنا انورٹر تبدیل کئے ایسا کرنا ممکن ہوگا۔ پندرہ کلوواٹ کے سولر سسٹم کےساتھ 6 عدد ڈیڑھ ٹن کے ’انورٹر ائرکنڈیشنرز‘ بیک وقت چلائے جا سکتے ہیں جبکہ پچیس لاکھ روپے کی اِس محفوظ سرمایہ کاری سے کوئی بھی صارف ہر ماہ اوسطاً ’تیس ہزار روپے‘ کما سکتا ہے۔ پندرہ کلوواٹ کا سولر سسٹم لگانے کےلئے گھر یا اراضی کا رقبہ کم سے کم دس مرلے ہونا چاہئے جبکہ بہتر ہوگا کہ ایک کنال (بیس مرلے) سے کم رقبے یا اراضی پر یہ سسٹم نہ لگایا جائے کیونکہ قریب قریب سولر پینلز لگانے سے اِن کا سایہ ایک دوسرے کو ڈھانپ دے گا جس سے سولر پینلز کو مکمل دھوپ نہیں مل پائے گی۔آن گرڈ سولر سسٹم کو لگانے والوں کو 2 تکنیکی
پہلو ذہن نشین رکھنے چاہیئں جو سولر سسٹم فروخت کرنے والے ’ڈیلر حضرات‘ نہیں بتاتے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ’آن گرڈ سولر سسٹم جس میں بیٹریاں نصب نہیں ہوتیں اور سولر توانائی براہ راست استعمال یا واپڈا کو فروخت کی جا رہی ہوتی ہے تو جیسے ہی واپڈا کی بجلی لوڈشیڈنگ یا کسی بھی دوسری وجہ جیسا کہ تکنیکی خرابی کے باعث بند ہوتی ہے تو سولر سسٹم بجلی کی پیداوار کرنا بھی بند کر دیتا ہے‘ بھلے ہی سورج سوا نیزے پر چمک رہا ہو۔ پریشانی بات نہیں کیونکہ اب یہ ممکن ہے کہ آن لائن سولر سسٹم لگانے والے بھی بیٹریاں نصب کر کے ’ہائبرڈ سسٹم‘ بنا سکیں‘ بہتر یہی ہے کہ 15کلوواٹ کے سولر سسٹم کےساتھ 6 کلوواٹ کا ایک ہائبرڈ انورٹر اور بیٹری الگ سے لگا دی جائے۔ اِس طرح سولر سسٹم کی لاگت چند لاکھ روپے بڑھ جائے گی لیکن اِس سے کوئی صارف بیک وقت آن لائن سسٹم اور آف لائن سسٹم کے فائدے اُٹھا سکتا ہے۔ یہ بھی اہم ہے کہ ہائبرڈ سسٹم میں خرابی کے امکانات چالیس فیصد جبکہ آن لائن سسٹم میں خرابی کے امکانات ایک فیصد سے بھی کم ہوتے ہیں۔ اگر واپڈا سے منسلک (grid tied) سسٹم کو الگ ہائبرڈ انورٹر اور بیٹری لگا کر ’آف لائن‘ کر دیا جائے تو ہائبرڈ سسٹم لگانے سے زیادہ پائیدار ہوگا لیکن یہ ایک غیرروایتی حل ہے جو ڈیلر عموماً تجویز نہیں کرتے۔ ذہن نشین رہے کہ سولر سسٹم بچت کی غرض سے لگایا جاتا ہے اور بچت ہی مقصد و ہدف پر حاوی رہنی چاہئے۔ اگر کسی صارف کو ہر سال بعد 1 لاکھ 60 ہزار روپے کی (چار عدد ٹیوبلر) بیٹریاں تبدیل کرنا پڑیں تو یہ کوئی بچت نہ ہوئی۔ دوسرا تکنیکی پہلو یہ ہے کہ سب سے سستی بجلی سولر پینلز سے (بنا بیٹری) حاصل کی جانے والی بجلی ہوتی ہے۔ دوسری سستی بجلی واپڈا کی ہوتی ہے اور قیمت کے لحاظ سے تیسری سستی بجلی بیٹریوں سے حاصل ہوتی ہے کیونکہ سولر سسٹم کےساتھ لگی بیٹریاں چھ ماہ کی وارنٹی کے ساتھ آتی ہیں اور یہ بمشکل ڈیڑھ سال اچھی کارکردگی دیتی ہیں۔ دوسرا تکنیکی پہلو یہ ہے کہ سولر سسٹم کے ساتھ ’لیتھیئم آئیون (Lithium ion) بیٹری ہی لگانی چاہئے جو دس سال تک کےلئے کارآمد رہتی ہے لیکن اِس کی قیمت عام بیٹریوں کے مقابلے سوفیصد سے بھی زیادہ ہوتی ہے‘ بارہ واٹ (100AH) کی لیتھیئم بیٹری 44 ہزار روپے جبکہ 48 واٹ کی (100AH) لیتھیئم بیٹری کی قیمت تین لاکھ سے پانچ لاکھ روپے کے درمیان ہے۔ یہ بیٹریاں اِسلئے مہنگی ہوتی ہیں کیونکہ اِن کے بار بار چارج ہونے کا عمل (cycles) پانچ ہزار تک ہوتے ہیں جبکہ دیگر بیٹریوں کے سائیکلز اس سے کم ہوتے ہیں‘ دوسری اہم بات یہ ہے کہ بیٹریوں کی عمر زیادہ گرمی اور زیادہ سردی دونوں صورتوں کی وجہ سے کم ہوتی ہے جبکہ لیتھیئم بیٹریوں پر موسم کا زیادہ اثر نہیں ہوتا۔ پندرہ کلو واٹ سسٹم کے لئے ایک لیتھیئم آون بیٹری لگانا کافی ہوگا جو چار ٹیوبلر بیٹریوں کے برابر بجلی فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور اِس کی عمر بھی دس سال سے زیادہ ہوتی ہے جبکہ ٹیوبلر بیٹریاں زیادہ سے زیادہ بھی پانچ سے سات سال کارآمد رہتی ہیں۔