اس وقت بجلی کے حوالے سے مسائل زیر بحث ہیں اور اس کیلئے مختلف قسم کی تجاویز بھی مختلف حلقوں کی طرف سے آرہی ہیں۔توانائی کے امور پر نگاہ رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مسئلے کا کوئی فوری اور آسان حل نہیں ، اس لئے سب سے پہلے تو ضروری ہے کہ صارفین کو بھی بجلی احتیاط سے استعمال کرنا چاہیے۔ماہرین کے مطابق بجلی کے نرخوں میں کمی کے لئے حکومت کو طویل المدتی پالیسیوں کو اپنانے، توانائی کے شعبے میں بنیادی اصلاحات کرنے اور سیاسی عزم کے ساتھ بڑے فیصلے کرنے کی ضرورت ہے۔اقتصادی تجزیہ کار وں کا کہنا ہے کہ بجلی کے بلوں میں کمی کے لئے توانائی کے شعبے کو حکومتی ڈومین سے نکالنا ہو گا۔ ان کے بقول حکومت کا ہی بجلی خریدنا اور حکومت کا ہی بجلی پیدا کرنا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے،زیادہ سے زیادہ سے بجلی سولر، پانی اور مقامی کوئلے سے بننی چاہیے اور صرف ٹارگٹڈ سب سڈی ہی دی جانی چاہئے۔واضح رہے کہ صرف پچھلے بیس مہینوں میں دو دفعہ بجلی کے بنیادی ٹیرف میں اضافہ کیا گیا ہے اور ایک مرتبہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر بجلی کی قیمتیں بڑھیں ہیں۔ اب تازہ اعدادوشمار بتا رہے ہیں کہ چند ہفتوں بعد کواٹرلی فیول ایڈجسٹمنٹ کے ضمن میں بجلی کی قیمتوں میں مزید فی یونٹ اضافہ کا امکان ہے، ''اس لیے اس مسئلے کو فوری طور پر حل کرنے کی بجائے دیرپا بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے دو مہینوں میں بجلی کے بلوں میں ہونے والے اضافے کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا تھا۔ دوسرا یہ کہ روپے کی قدر میں کمی بھی بجلی کی قیمتوں میں اضافہ کا باعث بنی تھی۔ ان مہینوں میں شدید گرمی اور حبس کی وجہ سے بجلی کا استعمال بھی بہت زیادہ بڑھ گیا تھا۔توانائی کے امور کے ایک ماہر کا کہنا ہےکہ بجلی کے بلوں کے ذریعے موصول کیے جانے والے متعدد ٹیکس بھی بل کی رقم میں چالیس فی صد اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح تقریبا ًدس فیصد صارفین بجلی کا بل نہیں دیتے اور بجلی کے ترسیلی نظام کے لائن لاسز بھی تقریبا بیس فی صد کے قریب ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بجلی کی ترسیل کا نظام بھی ناقص ہے بجلی کی ایک بڑی مقدار لائن لاسز کی نذر ہو جاتی ہے۔ نجی پاور پلانٹس کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کی وجہ سے ان کو ادا کیے جانے والے کیپیسٹی چارجز بھی بجلی کے بلوں میں اضافے کی ایک وجہ ہیں۔ اس دوران اگر چہ پاکستان میں پن بجلی زیادہ بننے کی وجہ سے اس سال بجلی کی پیداواری لاگت میں بائیس فی صد کمی ہوئی ہے۔ لیکن کئی دوسرے عوامل کی وجہ سے صارفین کو بجلی مہنگی مل رہی ہے۔ ایسے میں اگر بجلی کے بلوں میں دیے گئے ٹیکسز کو کم کر دیں تو فوری طور پر ان بلوں کی مالیت میں بیس سے تیس فی صد کمی آ سکتی ہے۔ جبکہ ریوینیو میں آنے والی اس کمی کو ان سیکٹرز پر ٹیکس لگا کر پورا کیا جا سکتا ہے، جو یا تو ٹیکس ہی نہیں دیتے یا پھر بہت ہی کم دیتے ہیں۔جہاں تک توانائی کے بحران کا معاملہ ہے تو اس کا آسان حل جدید طریقوں سے توانائی کے نت نئے ذرائع سے استفادہ کرنا ہے ۔ اس وقت اگر شمسی توانائی کو اس مسئلے کا ایک آسان حل سمجھا جائے تو غلط نہیں ہوگا ۔ کیونکہ اس ذریعہ توانائی سے استفادہ کرنا جہاں آسان ہے وہاں ایک چھوٹے گھرانے کیلئے اس کی تنصیب زیادہ مہنگی بھی نہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ اگر شمسی توانائی کے حصول کو کمرشل فائدے کا ذریعہ بنایا جائے تو پھر اس کی لاگت بہت بڑھ جاتی ہے ۔اس کے ساتھ ساتھ کفایت شعاری سے توانائی کے ذرائع کا استعمال بھی اس کا ایک متوقع حل ہے ۔ اور یہ بات محض بجلی یا توانائی کے ذرائع تک محدود دنہیں بلکہ جملہ وسائل کے استعمال میں کفایت شعاری کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے۔ اس میں کیا شک ہے کہ پانی جسے ہم فراوانی کے استعارے کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ بھی محدود ہے اور اگر اس کے استعمال میں کفایت شعاری کامظاہرہ نہ کیا جائے تو اس کی نایابی کا بھی خطرہ ہے بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں تو اب پانی کی نایابی ایک حقیقت ہے اور وہاں پر یہ مسئلہ شدت کے ساتھ موجود ہے ۔ خود وطن عزیز میں کئی علاقے ایسے ہیں جہاں پینے کے صاف پانی کی کمی کا سامنا ہے ۔