پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان رمیز حسن راجہ نے ’بجلی کی قیمت‘ پر جاری عوامی احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے اپنی 2 تصاویر یکجا کر کے جاری (ریلیز) کی ہیں۔ ایک تصویر میں وہ پریشان حال دکھائی دے رہے ہیں جبکہ اُن کے بال بکھرے اور الجھے ہوئے ہیں اور اُس پر لکھا ہے کہ ’واپڈا صارف‘ جبکہ دوسری تصویر میں اُن کے بال سنورے ہوئے ہیں اور چہرے پر اطمینان کے آثار دکھائی دے رہے ہیں جس پر لکھا ہوا ہے کہ ’سولر صارف۔‘ یہی آج کی حقیقت ہے کہ ’سولر صارفین‘ (شمسی توانائی سے بجلی حاصل کرنے والے) ایک ایسے وقت اور ماحول میں مطمئن ہیں جبکہ پورے ملک میں بجلی کی قیمتوں کو لے کر احتجاج ہو رہا ہے اور کوئی ایک بھی واپڈا صارف ایسا نہیں ہے جو بجلی کی قیمت یا اِس کی تقسیم و ترسیل کے نظام سے مطمئن ہو۔ اکسٹھ سالہ کرکٹر رمیز راجہ جنہوں نے 1978ءسے 1997ءتک پاکستان کے لئے کرکٹ کھیلی اور دس ہزار سے زیادہ رنز بنائے جبکہ ’پاکستان کرکٹ بورڈ‘ کے 35ویں سربراہ رہنے کا اعزاز بھی رکھتے ہیں اور کرکٹ کے حلقوں میں اپنے جامع و شگفتہ تبصروں (کمنٹری) کی وجہ سے خاص شہرت رکھتے ہیں جبکہ اُن کی شہرت کا ایک حوالہ سوشل میڈیا بھی ہے جہاں وہ ’یوٹیوبر‘ کے طور پر اُن سبھی موضوعات پر اظہار خیال کرتے ہیں‘ جنہیں کرکٹ کے شائقین کو جاننا چاہئے۔ رمیز راجہ سیاسی سوچ بھی رکھتے ہیں جسے کرکٹ پر حاوی نہ ہونے کی کوشش کرتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی جانب سے کسی بھی تبصرے (تجزیئے) کو کسی سیاسی جماعت کی حمایت و مخالفت سے بالاتر ہو کر دیکھا اور سمجھا جاتا ہے۔ قابل ذکر یہ بھی ہے کہ رمیز راجہ نے ایک ایسے وقت میں عوام کے جذبات کی عکاسی جبکہ بجلی کی قیمتیں عام آدمی کی قوت ِخرید سے زیادہ ہو چکی ہیں اور قومی فیصلہ سازی سے آگاہ حلقے بجلی مزید مہنگی ہونے کے ’خطرے (امکان)‘ سے خبردار کر رہے ہیں تو یہی مناسب (درست) وقت ہے کہ گھریلو سطح پر زیادہ یا کم صلاحیت والے شمسی توانائی کے نظام (سولر سسٹم) میں سرمایہ کاری کی جائے۔گھریلو استعمال کے لئے ’سولر سسٹم‘ صارف کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے لگایا جاتا ہے جبکہ اکثریت کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ بنیادی ضرورت کے مطابق سسٹم لگایا جائے اور اِس موقع پر بچت کے چکر میں عموماً کم صلاحیت والا سولر سسٹم لگا لیا جاتا ہے۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ ڈیلرز سولر صارفین کی درست رہنمائی نہیں کرتے بلکہ وہ گاہگ کو ’سبز باغ‘ دکھا کر ایسے آلات فروخت کر دیتے ہیں جو اُس کی انتہائی بنیادی ضرورت تو پوری کرتا ہے لیکن کافی نہیں ہوتا اور سولر سسٹم لگانے کے باوجود بھی اُس کے بجلی بل میں حسب توقع کمی نہیں آتی۔ گھریلو صارفین کی ضرورت کو مدنظر رکھتے ہوئے ’سولر سسٹمز‘ کے اب تک ایک کلوواٹ سے تین کلوواٹ‘ پانچ کلوواٹ‘ دس کلوواٹ اور پندرہ کلوواٹ سے متعلق موضوعات کو الگ الگ پیش کیا گیا ہے اور رواں ماہ ’اگست 2023ئ‘ میں سولر آلات کی صرف قیمتیں ہی نہیں بلکہ دستیاب آلات کی اقسام سے متعلق بھی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ سولر سسٹم کسی بھی صلاحیت کے ہو سکتے ہیں جیسا کہ 1.2کلوواٹ‘ 3.2 کلوواٹ‘ 6 کلوواٹ‘ 8کلوواٹ وغیرہ لیکن گھریلو صارفین کے لئے مارکیٹ میں رائج سسٹمز میں ’ بیس کلوواٹ‘ آخری حد سمجھا جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ مالی طور پر مستحکم یا بادل نخواستہ سولر سسٹم میں سرمایہ کاری کرنے والے صارفین بالعموم ’بیس کلوواٹ‘ تک ہی کے سولر سسٹم لگواتے ہیں جس سے انہیں ماہانہ بائیس سو سے چوبیس سو یونٹ بجلی پیدا کرنے کی حاصل رکھتا ہے چونکہ اِس سسٹم میں زیادہ سولر پینلز نصب کرنے کی ضرورت ہوتی ہے اِس لئے بہتر یہی ہے کہ 20کلوواٹ کا سولر سسٹم وہی صارفین لگوائیں جن کے گھر کی چھت کم سے کم پندرہ یا بیس مرلے رقبے گھر یا اراضی ہو۔ ذہن نشین رہے کہ ایک مرلہ رقبہ 272 اعشاریہ 25 فٹ کے برابر ہوتا ہے۔سولر سسٹم کو ’گرین انرجی‘ بھی کہا جاتا ہے یعنی یہ ایک ماحول دوست بجلی پیدا کرنے کا نظام ہے۔ بجلی پیدا کرنے کے روایتی نظاموں میں پانی‘ کوئلہ‘ خام تیل‘ ڈیزل‘ پیٹرول اور جوہری توانائی کا اِستعمال کیا جاتا ہے جن کے متبادل سورج کی روشنی اور ہوا کی طاقت سے پیدا ہونے والی بجلی کو اِس لئے ”ماحول دوست“ کہا جاتا ہے کیونکہ اِس طرح بجلی پیدا کرنے کے آلات کا استعمال کرتے ہوئے دھواں یا کسی بھی قسم کی آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔ 20کلوواٹ کا سولر سسٹم چونکہ نسبتاً زیادہ سرمایہ کاری ہے کیونکہ اِس میں 450 واٹ طاقت والے 45 عدد سولر پینلز اور اِس کے ساتھ ’سولس (Solis)‘ کمپنی کا بنا ہوا ’آن گرڈ سولر انورٹر‘ استعمال کیا جاتا ہے۔ اِس لئے مختلف ڈیلرز اپنی مہارت اور تجربے کی بنیاد پر اِس سسٹم کے مختلف حل (سلوشنز) پیش کرتے ہیں بالعموم اِس مقصد کے لئے ’لونجی (Longi)‘ نامی کمپنی کے سولر پینلز (Model LR4-72HPH-450M) کا انتخاب کیا جاتا ہے جو ’ہاف کٹ‘ مونو ٹیکنالوجی والے سولر پینلز ہیں اور یہ لمبے عرصے کے لئے ایک جیسی بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور اِن سے مختلف موسموں یعنی کم یا زیادہ دھوپ والے دنوں میں بجلی کی بلاتعطل پیداوار حاصل کی جا سکتی ہے‘ اہم بات یہ بھی ہے کہ سولر سسٹم سے انورٹر تک بچھائی جانے والی تاریں کسی ایسے پلاسٹک کے پائپ سے گزاری جائیں جو دھوپ اور بارش کی وجہ سے خراب نہ ہو۔ سولر ڈیلرز اِسی ڈھانچے‘ سول ورک اور بجلی کی وائرنگ کرتے ہوئے لاکھوں روپے کی بچت کرتے ہیں کیونکہ دیگر سبھی سولر آلات کی قیمتیں مارکیٹ سے معلوم کی جا سکتی ہیں اور آن لائن ویب سائٹس سے بھی معلومات اکٹھی کی جا سکتی ہیں لیکن انسٹالیشن کے دوران کمائی کے طریقوں (جوگاڑ) کو صرف اِسی صورت روکا جا سکتا ہے جبکہ صارف خریداری کے عمل میں دلچسپی لے۔بیس کلوواٹ کے سولر سسٹم کی قیمت (اگست دوہزارتیئس میں) 33 سے 35 لاکھ روپے ہے جبکہ یہ لاگت زیادہ سے زیادہ چار سال میں پوری ہو جاتی ہے کیونکہ اِس سسٹم کے ذریعے ابرآلود موسم میں بھی یومیہ کم سے کم 55 یونٹ بجلی حاصل ہوتی ہے۔ ذہن نشین رہے کہ جو صارفین ماہانہ 300 سے 500 یونٹس شمسی توانائی چاہتے ہیں اُن کی بنیادی ضرورت 3 کلوواٹ کے سولر سسٹم سے پوری ہو گی۔ جو 500 سے 600یونٹس ماہانہ بجلی سولر سے چاہتے ہیں اُنہیں 5کلوواٹ‘ جو 1100 سے 1200 یونٹ ماہانہ چاہیں اُنہیں 10کلوواٹ‘ جو 1700 سے 1800 یونٹ ماہانہ چاہیں اُنہیں 15کلوواٹ‘ جو 2300 سے 2400یونٹ ماہانہ چاہیں اُنہیں 20کلوواٹ‘ جو 2800 سے 3000یونٹ ماہانہ چاہیں اُنہیں 25کلوواٹ‘ جو 3500 سے 3600 کلوواٹ چاہیں اُنہیں 30کلوواٹ اور جو 4000 سے 4200 یونٹ بجلی ماہانہ چاہتے ہوں اُنہیں 35کلوواٹ صلاحیت والا سولر سسٹم لگانا چاہئے۔ بیس کلوواٹ کے ’آن گرڈ سولر سسٹم‘ کے لئے 450واٹ کے 45 عدد سولر پینلز کی ضرورت ہو گی جن کی مجموعی قیمت 22 لاکھ 50 ہزار روپے بنتی ہے جبکہ انورٹر کی قیمت 5 لاکھ روپے‘ ڈھانچے‘ سول ورک‘ ارتھنگ انسٹالیشن اور نیٹ میٹرنگ کے لئے 7 لاکھ روپے اور متفرق اخراجات کے لئے ایک لاکھ روپے مختص کرتے ہوئے مجموعی لاگت ’35 لاکھ روپے‘ ذہن نشین رکھنی چاہئے۔ اگر اِس سسٹم کو ہائبرڈ کرنا ہو تو اُس صورت میں انسٹالیشن کی پوری حکمت عملی تبدیل کرنا پڑے گی اور ایسی صورت میں 3 انورٹرز (7.5 کلواٹ) لگانا زیادہ بہتر رہے گا اور ہر انورٹر کے ساتھ 4 ٹیوبلر بیٹریاں لگا دی جائیں تو یہ زیادہ پائیدار رہتا ہے۔ ساڑھے سات کلوواٹ کے ایک انورٹر کی قیمت پچاس سے ستر ہزار روپے ہے جبکہ ایک ٹیوبلر بیٹری پچاس سے پچپن ہزار روپے تک آتی ہے۔ اِس طریقے سے آن لائن انورٹرز کی قیمت میں ہونے والی کچھ بچت کی سرمایہ کاری قریب چھ لاکھ مالیت کی بیٹریوں میں ہو جائے گی۔ آن گرڈ سسٹم اور آف گرڈ (ہائبرڈ سسٹم) کی قیمت میں یہی ”چھ لاکھ روپے“ کا فرق ہے جس کی قیمت چالیس لاکھ روپے تک چلی جاتی ہے۔