ہری پور جیل

ژرف نگاہ …… شبیرحسین اِمام


ہری پور جیل


امریکہ کی معروف مارکسٹ رہنما ’انجیلا ڈیوس‘ کا قول ہے کہ ”قیدخانے سماج دشمن روئیوں کو تبدیل کرنے کے لئے بنائے جاتے ہیں اُور اِن میں ایسے لوگوں کو رکھا جاتا ہے جو دوسروں کے لئے خطرہ ہوں۔“ قیدخانے کی یہ مختصر تعریف‘ اِس کے کردار (خدمات) کا یہ پورا احاطہ نہیں کرتی بلکہ آج کی تاریخ میں قیدخانوں کو ’اصلاحی مراکز‘ میں تبدیل کرنے جیسے انقلابی تصورات و اقدامات اُور اصلاحات کی جا رہی ہیں جن میں قیدیوں کو ذمہ دار فرد بنانے کے لئے اُن کی اخلاقی تربیت کی جاتی ہے اُور اُنہیں ہنرمند بنایا جاتا ہے جس کے لئے علمی و فنی (تکنیکی) تربیت کا ایسا اہتمام کیا جاتا ہے کہ سزا مکمل کرنے کے بعد وہ معاشرے کا ’کارآمد جز‘ بن سکیں اُور اُن کے قول و فعل کی اصلاح اِس طرح ہو کہ جیل جانے سے پہلے اُور جیل سے رہائی پانے کے بعد وہ بالکل ہی الگ شخصیت و خصوصیات کے مالک ہوں۔

خیبرپختونخوا کے قیدخانوں میں اصلاحات کے جاری عمل میں ماہر نفسیات تعینات کرنے کی منظوری دی جا چکی ہے اُور اگر خیبرپختونخوا کے جیل خانہ جات کی ویب سائٹ (prisons.kp.gov.pk) پر فراہم کردہ 25 نکاتی جیل اصلاحات و اقدامات پر نگاہ کی جائے تو اِس فہرست اُن سبھی اقدامات کا ذکر کیا گیا ہے جو صرف قیدیوں ہی کے لئے بلکہ قیدخانوں سے باہر رہنے والوں کی بھی ضرورت ہے جیسا کہ پینے کے صاف اُور موسم کے لحاظ سے ٹھنڈے و گرم پانی کی فراہمی‘ اچھی خوراک‘ نفسیاتی جائزے اُور مشاورت کے علاؤہ کھیل کود اُور تعلیم و تربیت کے خاطرخواہ مواقع وغیرہ۔ اگست دوہزاربیس کی بات ہے جب اُس وقت کے وزیراعلیٰ کے معاون خصوصی برائے جیل خانہ جات تاج خان نے کہا تھا کہ خیبر پختونخوا حکومت جیل اصلاحات کے حصے کے طور پر صوبے کی تین اہم جیلوں میں صنعتیں لگانے پر غور کر رہی ہے تاکہ قیدیوں کو معاشرے کا مفید اور ہنرمند شہری بنایا جا سکے۔ ویژن یہ تھا کہ قیدیوں کو ان کی رہائی سے پہلے معاشرے کا کارآمد شہری بنانے کے لئے جامع اصلاحاتی ایجنڈے پر کام کیا جائے۔ اِس مقصد کے لئے پشاور‘ ہری پور اور مردان سمیت تین اہم جیلوں میں صنعتیں قائم کی گئیں۔ 17 اگست 2018ء سے 21 جنوری 2023ء تک رہنے والی صوبائی حکومت نے جیلوں سے متعلق جو اصلاحات متعارف کروائیں اُن کے ثمرات ظاہر ہونا شروع ہو گئے ہیں۔


ہری پور جیل کے نگران (سپرٹینڈنٹ جیل) عمیر خان کا تعلق پشاور سے ہے۔ پشاور سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سال دوہزاراُنیس بیس میں اُنہوں نے شیننگ اسکالرشپ پر ’برطانیہ کی یونیورسٹی آف ایڈنبرگ سے جرائم کی نفسیات اُور فوجداری انصاف (Criminology and Criminal Justice) میں ’ایم ایس سی‘ کی۔ وہ گزشتہ سات سال سے صوبائی محکموں میں کلیدی عہدوں پر کام کر چکے ہیں جبکہ گزشتہ دو سال ایک ماہ سے سپرٹینڈنٹ جیل ہیں۔ عمیر خان نے بتایا کہ ”ہری پور جیل میں قیدیوں کو وڈ ورک‘ کارپینٹرنگ‘ مٹی کے گملے‘ جوتا (چپلی) سازی جیسے ہنر سکھائے جاتے ہیں۔ یہ ہنر سکھانے کے لئے حکومت کے ٹیکنیکل تربیتی ادارے سے تکنیکی تعاون حاصل کیا گیا ہے اُور جو قیدی یہ ہنر دلچسپی سے سیکھتے ہیں اُور اُن کی تربیت مکمل ہو جاتی ہے تو اُنہیں ٹیکنیکل ایجوکیشن کے محکمے کی جانب سے سند (ڈپلومہ) بھی جاری کیا جاتا ہے۔ سکھائے جانے والے ہنر میں فرنیچرسازی‘ قالین بافی اُور لکڑی سے بنائی جانے والی مختلف قسم کی مصنوعات (ووڈ ورک) کی تربیت بھی دی جاتی ہے۔ قیدیوں کو باہنر بنانے کی حکمت عملی حال ہی میں وضع کی گئی اُور جیسا کہ ہمیشہ ہوتا ہے کہ حکومت تبدیل ہونے کے بعد حکمت عملیوں میں بھی تسلسل نہیں رہتا۔ ہری پور اُور دیگر دو جیلوں میں شروع کئے گئے ہنرمندی کے اِن منصوبوں کا مستقبل بھی زیادہ روشن دکھائی نہیں دے رہا جس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی ہنر کو سیکھنے کے لئے خام مال کی ضرورت ہوتی ہے اُور جیل خانہ جات کو ملنے والے مالی وسائل پہلے ہی اِس قدر نہیں ہوتے کہ اُن وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے جیل خانے ازخود تربیتی پروگرام شروع کر سکیں۔ یہاں ایک اُور نکتہ بھی لائق توجہ ہے کہ ہمارے پاس جرائم اُور قیدیوں کی نفسیات میں دنیا کی بہترین جامعات سے فارغ التحصیل اذہان عالیہ موجود ہیں جنہیں اگر کہا کہ وہ قیدیوں کے نفسیاتی پہلوؤں اُور اُن کی تربیت سے متعلق تحقیقی مقالہ لکھیں تو وہ کاغذوں کا ڈھیر (انبار) لگا دیں لیکن جب اُن کے زیرنگرانی قیدخانوں کے پس پردہ حالات دیکھے جاتے ہیں تو سخت مایوسی ہوتی ہے۔ جیل خانہ جات شروع دن سے اصلاحی مراکز ہونے چاہیئں لیکن اگر ایسا نہیں ہے تو اِس کی کئی ایک وجوہات میں جیل خانوں کے محدود افرادی و مالی وسائل پر قیدیوں کا بوجھ ہے۔ 


ہری پور جیل کی انتظامیہ نے قیدیوں کی تربیت کے لئے مشینوں کی خریداری اُور انسٹرکٹرز کی خدمات حاصل کی ہیں اُور حکمت عملی یہ ہے جیل میں بنائی جانے والی مصنوعات کو فروخت کرنے کے لئے ایک شو روم بھی بنایا جائے۔ اِسی حکمت عملی کا حصہ ہے کہ قیدیوں کے ہنر سے زیادہ بڑے پیمانے پر استفادہ کرنے کے لئے آڈر پر مصنوعات بنائی جائیں اُور یوں جیل خانے کا ایک حصہ نہیں بلکہ پورا جیل خانہ ہی صنعت بن جائے جو اپنی ذات میں ایک انقلابی اُور قابل عمل تصور ہے۔ اِس بارے میں ہری پور جیل کی جانب سے صوبائی محکمہئ جیل خانہ جات کو چند تجاویز تحریراً ارسال کی گئیں ہیں لیکن اُن کا جواب مہینوں سے نہیں آیا جبکہ ہری پور جیل سے سنٹرل جیل پشاور سے ملحقہ جیل خانہ جات کا صوبائی صدر دفتر کا زمینی فاصلہ بمشکل دو گھنٹے (155کلومیٹر) ہے۔ تجاویز میں یہ بات بھی شامل ہے کہ حکومتی ادارے جیسا کہ ایلیمنٹری اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کا محکمہ ہر سال جن اشیا کی خریداری کرتا ہے اُس کے بنانے کا ٹھیکہ ہری پور جیل کو دیدیا جائے‘ اِس طرح ایک مستقل گاہگ کی ضروریات بھی پوری ہوں گی اُور جیل کی آمدنی میں اضافہ ہونے سے قیدیوں کو فراہم کی جانے والی سہولیات میں بھی اضافہ کیا جا سکے گا۔


ہری پور جیل کے زیادہ تر قیدی لمبے عرصے کی سزا کاٹ رہے ہیں۔ اِن میں پچیس سالہ قیدی اسپین گل بھی شامل ہیں جو چپلی بنانے کا ہنر سیکھ رہے ہیں۔ اِس چپلی کو پشاوری چپلی بھی کہتے ہیں۔ گلابی مائل سرخ اُور سیاہ رنگ کی اِس روائتی چپل کو ماضی میں ’قاف‘ اُور ’کرم‘ نامی چمڑے سے بنایا جاتا تھا لیکن اب قاف اُور کرم جیسے سخت لیکن پائیدار چمڑے کی جگہ نرم و ملائم کٹ پیس (منصوعی چمڑے) نے لے لی ہے جسے اگرچہ ’ہائی کرم‘ کہا جاتا ہے لیکن یہ رنگ اُور خوشبو میں دیسی کرم جیسا نہیں البتہ خوبصورتی کے لحاظ سے بہتر ہے اُور اِس سے جوتے بنانا بھی نسبتاً آسان ہوتا ہے لیکن پائیداری کم ہونے کی وجہ سے یہ جوتے زیادہ پسند نہیں کئے جاتے۔ جیل خانہ میں ہنر سکھاتے ہوئے اگر چپلی کی روائتی صنعت اُور ذوق کو زندہ کیا جائے جس کی مانگ اب بھی اندرون بیرون ملک ہے تو اِس سے نہ صرف قیدیوں کے ہنر میں اضافہ ہوگا بلکہ ہری پور اُور دیگر تکنیکی تربیت کے تجرباتی جیل خانہ جات کو مالی فائدہ بھی ہوگا۔ ہری پور جیل میں تیار ہونے والی چپلی دو ہزار روپے فی جوڑا فروخت کی جاتی ہے جبکہ مارکیٹ میں اِس کی قیمت تین ہزار روپے ہے۔


قیدیوں کے ذہنوں پر اِس ہنرمندی کے مثبت اثرات ظاہر ہو رہے ہیں۔ اسپین گل کے مطابق ہنر سیکھنے اُور کام میں مصروفیت کی وجہ سے ذہن منفی خیالات کی طرف بھی نہیں جاتا جس کی ایک مثال یہ ہے کہ چند روز قبل قیدیوں کی اہل خانہ سے ملاقات کا دن تھا اُور اُس دن جب ایک قیدی کو بار بار یاد دلایا گیا کہ تمہاری ملاقات ہے تو وہ کہتا رہا بس تھوڑا سا کام باقی ہے یہ کر کے جاتا ہوں۔ یوں قیدی ایک ایسی مصروفیت میں مشغول ہیں جس سے اُن کا وقت بھی زیادہ بہتر انداز میں کٹ رہا ہے اُور اِس سے اُنہیں تجربہ بھی حاصل ہو رہا ہے‘ جو یقینا غنیمت ہے۔ جیل میں تربیتی مرکز کے اوقات کار 9 سے 2 بجے ہیں لیکن قیدی عصر (سہ پہر چار بجے تک) تربیتی مرکز ہی میں رہتے ہیں کیونکہ اِس محنت سے اُنہیں مالی فائدہ بھی ہو رہا ہے جس سے وہ جیل کے اندر چائے پانی کا بندوبست کرنے کے علاؤہ گھر والوں کو بھی جمع پونجی بھیجتے ہیں۔
……

کیٹگری: شبیر حسین امام