پہلی رائے: حکومت کا کہنا ہے کہ مہنگائی کا سامنا صرف پاکستان کو نہیں بلکہ دنیا کے کئی ممالک میں مہنگائی ہونے کی داخلی و خارجی وجوہات ہیں۔ خارجی وجوہات میں موسمیاتی تبدیلیاں‘ روس یوکرائن جنگ اور کورونا وباءکے اثرات میں حکومت پٹرولیم اور بجلی و گیس کے علاوہ دیگر تمام شعبوں میں سبسڈی کی پابند ہے دوسری رائے: کاروباری طبقے (تاجروں‘ صنعتکاروں اور دکانداروں) کا مو¿قف ہے کہ بجلی کی قیمت‘ پیٹرولیم مصنوعات‘ ٹیکسوں کی شرح اور روپے کے مقابلے ڈالر کی قیمت میں آئے روز اضافے کی وجہ سے مہنگائی ہو رہی ہے۔ تیسری رائے: عام آدمی کا خیال ہے کہ ملک میں مالی و انتظامی نظم و نسق پر نظرثانی کی ضرورت ہے۔ آمدنی کے لحاظ سے ٹیکس عائد کئے جانے کی بجائے غریب عوام پر زیادہ جبکہ خوشحال اور انتہائی خوشحال طبقات پر کم ٹیکس عائد کیا گیا ہے۔ اِس پوری صورتحال سے ایک قومی اتفاق رائے ابھرتا ہوا دکھائی دے رہا ہے‘ جس کی قیادت کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھ میں نہیں اور پاکستان کی تاریخ میں یہ پہلا موقع ہے کہ آج (دو ستمبر دوہزارتیئس) کے روز ملک گیر احتجاج اور شٹرڈاو¿ن ہڑتال کا سہرا اپنے سر لینے کےلئے ماضی کی تینوں بڑی حکمراں جماعتوں (مسلم لیگ نواز‘ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف) یا پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) میں شامل جماعتوں کی جانب سے کوئی ایک بھی سامنے نہیں آ رہا البتہ جماعت اسلامی نے عام آدمی (ہم عوام) کی ہمدردیاں حاصل کرنے کی کوشش کی ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بجلی و پیٹرولیم کی مقررہ قیمتوں‘ اِن قیمتوں میں آئے روز اضافے اور یوٹیلٹی بلز میں شامل کئے گئے (بالواسطہ اور بلاواسطہ) ٹیکسوں سے متعلق ’احتجاج‘ کا کوئی ’سیاسی ایجنڈا‘ نہیں اور اِس کا مقصد قومی فیصلہ سازوں کی توجہ اِس سیدھی سادی بات کی جانب مبذول کروانا ہے کہ مہنگائی اور معاشی مشکلات کا مقابلہ کرتے ہوئے عام آدمی کی قوت خرید اور برداشت جواب دے گئی ہے۔بجلی یا پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں حالیہ اضافے اور آئندہ چند ہفتوں میں مزید اضافے کی خبروں سے عام آدمی (ہم عوام) اور کاروباری حلقوں میں تشویش پائی جاتی ہے جس کا اظہار ’31 اگست‘ کے روز خیبرپختونخوا کے مختلف شہروں میں شٹرڈاو¿ن ہڑتال کی صورت دیکھنے میں آیا ’2 ستمبر‘ کی ہڑتال ملک گیر سطح پر ہے جس کےلئے تاجروں کے کل پاکستان اتحاد نے کال دی ہے اور مختلف صوبوں کے چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے نمائندوں نے بھی اِس کی حمایت کا اعلان کر رکھا ہے۔ جماعت اسلامی کو یہ اعزاز حاصل ہوا ہے کہ اِس نے سب سے پہلے اِس ہڑتال کی حمایت کا اعلان کیا اور اِسے کامیاب بنانے کےلئے ملک گیر سطح پر اپنے کارکنوں کو متحرک کرتے ہوئے تیاریاں کیں۔ ظاہر ہے کسی بھی سیاسی جماعت کی کامیابی عوام کی نبض شناسی میں ہوتی ہے اور چونکہ عوام کی نظروں میں جماعت اسلامی کی سیاست دیگر جماعتوں کے مقابلے ’متوسط اور غیرجانبدار‘ رہی ہے اور جماعت نے ہر دور میں عوام کو درپیش مشکلات اور صوبائی حقوق کو اُجاگر کیا ہے اِس لئے تاجروں نے جماعت اسلامی کو ملک گیر ہڑتال کا حصہ (برانڈ ایمبسڈر) بنانے میں زیادہ سوچ بچار سے کام نہیں لیا۔توجہ طلب ہے کہ کاروباری طبقے کی نمائندگی کرنے والے دھڑے اپنے اپنے تنظیمی ڈھانچوں میں سیاسی اور غیرسیاسی وابستگیاں رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ عوامی مسائل کے بارے میں اِن تنظیموں کے مو¿قف میں تین طرح کی تبدیلیاں دیکھنے میں آتی ہیں۔ ”سختی‘ لچک اور نرمی“ پر مبنی اِن تین روئیوں کا تعلق سیاسی قیادت کی جانب سے ملنے والے اشاروں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی سیاسی جماعت چاہتی ہے کہ وہ مخالف حکمراں جماعت کے لئے مشکلات پیدا کرے تو وہ اپنی تاجر تنظیموں کو ’سخت رویئے‘ کے اظہار کا پیغام یا اشارہ (سگنل) بھیج دیتے ہیں بصورت دیگر وہ ’لچک اور نرمی‘ پر مبنی مصلحت سے کام لیتی ہیں۔ سیاسی و کاروباری طبقات کی اِس حکمت ِعملی سے عام آدمی کو ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے کہ بظاہر جو کچھ بھی دکھائی دے رہا ہوتا ہے اُس کا حقیقت سے بہت ہی کم تعلق ہوتا ہے اور سیاست در سیاست اور مخالفت در مخالفت کی طرح اِحتجاج کے بھی کئی ایسے پہلو (رُخ) ہوتے ہیں جو ہاتھی کے دانتوں کی طرح کھانے کے الگ اور دکھانے کے الگ ہوتے ہیں! ہم عوام کو سمجھنا چاہئے کہ احتجاج جتنا بھی بڑے پیمانے پر ہو اور شٹرڈاو¿ن ہڑتال جس قدر بھی کامیاب ہو لیکن اِس سے معیشت و معاشرت میں بہتری (تبدیلی) اُس وقت تک نہیں آئے گی جب تک فیصلہ سازی میں قومی مفادات اور ترجیحات کا تعین کرتے ہوئے درست فیصلے نہیں کئے جاتے۔ مہنگائی خالصتاً تکنیکی نہیں بلکہ سیاسی مسئلہ بھی ہے جس کے مختلف محرکات اُور پہلوو¿ں کی اصلاح کےلئے سیاسی اُور تکنیکی لائحہ عمل تشکیل دینا ہوں گی۔ قومی پالیسیاں جس سیاسی اتفاق رائے سے بنائی گئی ہیں اُن میں ترمیم اُور تبدیلی کےلئے بھی اُسی سیاسی اتفاق رائے کی ضرورت ہے اور یہ وہ مرحلہ فکر (وقت) ہے جہاں روایتی سیاسی جماعتوں کے مقابلے غیرروایتی جماعتوں کے مختلف سیاسی نکتہ ہائے نظر (اصلاحاتی منشور) کا جائزہ لیا جائے اور آئندہ عام انتخابات میں نئی قیادت اور نئی جماعتوں کو قومی فیصلہ سازی کا اختیار دیا جائے۔ حرف آخر یہ ہے کہ عام انتخابات میں تاخیر جس قدر زیادہ ہوگی ملک کے معاشی مسائل بشمول مہنگائی بیروزگاری کے باعث قوت ِخرید میں کمی کی وجہ سے عوام میں پائی جانے والی بے چینی‘ تشویش اور پریشانی کا خاتمہ نہیں ہوگا بلکہ اِس کی شدت میں اضافہ ہوگا جو کسی بھی صورت تعمیری نہیں اور کوئی بھی یہ دیکھنا نہیں چاہے گا کہ معاشی الجھنوں کی وجہ سے ملک ’سول نافرمانی‘ دیکھے محبت ہو یا نفرت‘ احتجاج ہو یا اظہار رائے ہر ایک جذبے اور ہر ایک عمل کو عقل کے تابع ہونا چاہئے۔