یونیورسٹی آف شکاگو کے ’انرجی پالیسی انسٹی ٹیوٹ (ای پی آئی سی)‘ کی جاری کردہ تازہ ترین ائر کوالٹی لائف انڈیکس (اے کیو ایل آئی) میں کہا ہے کہ ”پاکستان میں انسانی صحت کو لاحق خطرات کے لحاظ سے فضائی آلودگی اب دل کی بیماریوں کا باعث بن رہی ہے اور زہریلی ہوا کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال ہر دن خراب ہو رہی ہے۔“ اے کیو ایل آئی کے مطابق ”فضائی آلودگی کی وجہ سے پاکستانیوں کی اوسط عمر سے قریب چار سال کم ہو گئی ہے۔ پاکستان کا دنیا کے آلودہ ترین ممالک میں سے ایک بننا تعجب کی بات نہیں‘ یہ دیکھتے ہوئے کہ ہمارے کچھ بڑے شہری مراکز اب باقاعدگی میں دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شمار ہو رہے ہیں۔ لاہور اور کراچی کو بالترتیب دنیا کے آٹھویں اور چودھویں آلودہ ترین شہروں میں شمار کیا جاتا ہے شاید بہت کم لوگوں نے سوچا ہوگا کہ فضائی آلودگی سے عوام کی صحت اور فلاح و بہبود پر اتنا زیادہ اثر پڑے گا اور اس قدر بھاری قیمت ادا کرنی پڑے گی اور زیادہ تشویش کی بات یہ ہے کہ اب یہ مسئلہ صرف شہری مراکز تک ہی محدود نہیں رہا۔ ای پی آئی سی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پاکستان کی آبادی کا بڑا حصہ جن علاقوں میں رہتا ہے وہاں سالانہ آلودگی کے ذرات کی اوسط عالمی معیار سے زیادہ ہو چکی ہے جبکہ 98 فیصد سے زیادہ ایسے علاقوں میں رہتے ہیں جہاں کی ہوا زہریلی ہے۔
نیشنل کلین ائر پالیسی کے نام سے سرکاری رپورٹ جاری کی گئی ہے اِس رپورٹ کی خاص بات یہ ہے کہ ہمارے فیصلہ سازوں نے فضائی آلودگی کے مسئلے کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ اِس پالیسی میں تجویز کیا گیا ہے کہ زرعی باقیات کو کھلے عام نہ جلایا جائے۔ ڈمپنگ سائٹس پر میونسپل کچرے کو نہ جلایا جائے۔ گاڑیوں کے اخراج کے معیارات اور صنعتوں کے لئے اخراج کنٹرول کے سخت معیارات بھی اِس پالیسی میں شامل ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ اِس پالیسی پر عمل درآمد کون کرے گا اور کون کروائے گا؟ اگرچہ نئی قومی پالیسی حوصلہ افزا ہے لیکن روایتی طور پر اس پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے خاطرخواہ فوائد حاصل نہیں ہوں گے اور ملک میں ماحولیاتی اور عوامی صحت اور حفاظت کے معیارات کے لئے خطرات بدستور قائم رہیں گے۔ کوئی بھی پالیسی ہو اُس وقت تک کامیاب نہیں ہوگی جب تک اُسے کامیاب بنانے کے لئے عوام تعاون نہ کریں۔ ماحولیاتی اور فضائی آلودگی کا احساس کرتے اور نئے معیارات کے معاشی و صحت عامہ پر اثرات کو دیکھتے ہوئے ضروری ہو گیا ہے کہ ماحول کی بہتری کو قومی ترجیح بنایا جائے اور اِس مسئلے پر عملاً پیش رفت بھی ہونی چاہئے کیونکہ صرف اعتراف حقیقت اور پالیسیاں بنانا کافی نہیں بلکہ بہت سے مشکل سوالات کا جواب تلاش کرنا بھی ضروری ہے جیسا کہ پاکستان کی آب و ہوا کے زہریلے ہونے کے محرکات کیا ہیں اور اِن کی اصلاح کیسے کی جا سکتی ہے۔پاکستان میں فضائی آلودگی کے مسئلے کو سمجھنے اور اسے حل کرنے کیلئے اس وقت جو سنجیدگی نظر آرہی ہے اس کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ماضی کے مقابلے میں حالات کو مثبت سمجھا جا سکتا ہے ۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ جو نیشنل کلین ائر پالیسی کے نام پر سرکاری رپورٹ جاری کی گئی ہے اور اس میں فضائی آلودگی کو باضابطہ ایک مسئلے کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے ۔ اس پر تیزی کے ساتھ پیش رفت کی جائے اور اولین ترجیح کے طور پر فضائی آلودگی کے مسئلے کی حل پر توجہ مرکوز رکھی جائے۔ اس سلسلے میں آگاہی مہم بھی ضروری ہے تاکہ عام آدمی کوبھی اس مسئلے کی شدت کا احساس ہو اور اپنے ارد گرد ماحول کو وہ آلودگی سے پاک رکھنے میں اپنے کردار اور ذمہ داریوں سے آگاہ ہو۔