پہلی بات: پورے جھوٹ کے تخلیل اور پورے سچ کے لئے کھوج کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی انسان کی نفسیاتی اور علمی و عملی تعلیم و تربیت کا نچوڑ ہوتے ہیں۔ اِس لئے ہر شخص سے توقع نہیں کی جا سکتی یا توقع نہیں کی جانی چاہئے کہ وہ جھوٹ کی تخلیق اور سچ کی کھوج میں سرگرداں ہوگا اور اپنی توانائیاں اور وسائل خرچ کرتے ہوئے ’ذہنی و جسمانی مشقت یا زحمت‘ کرے گا۔ دوسری بات: عالمی پیمانہ یہ ہے کہ ”بڑی سچائی“ ایمانداری (دوسروں کے لئے مفید ہونا ہے) اور ”بڑا جھوٹ“ بے ایمانی (دھوکہ دہی یا فریب) ہے۔ تیسری بات: موجودہ دور میں سچائی اس قدر مبہم ہو چکی ہے اور جھوٹ اتنا عام و قائم ہو چکا ہے کہ جب تک ہم سچ سے اُنسیت‘ لگاو¿‘ یا محبت نہیں کریں گے اُس وقت تک سچ کو حاصل (جان) بھی نہیں سکیں گے۔ چوتھی بات: جو شخص حقائق نہیں جانتا وہ اُس شخص سے مقابلے زیادہ سچائی پر ہوتا ہے جس کا ذہن جھوٹ اور غلطیوں سے بھرا ہوا ہو۔اَمریکہ میں نت نئی بیماریوں کی تشخیص اور اِن کے علاج معالجے سے متعلق تحقیقات کی تصدیق کے نگران و سرپرست حکومتی اِدارے ’سنٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونشن (CDC)‘ کا کہنا ہے کہ ”تجربات سے ثابت ہوا ہے کہ کورونا وبا کی نئی قسم‘ جس کا نام BA.2.28 ہے کے خلاف پہلے سے موجود ’کورونا ویکسین‘ کافی ہے جبکہ کورونا وائرس کی ایک اور قسم XBB.1.5 جو کہ ’اومی کرون (Omicron) وائرس‘ کے خاندان سے تعلق رکھتا ہے اُس کے لئے الگ سے ویکسین تیار کر لی گئی ہے۔“ 8 ستمبر 2023ءکے روز ’رائٹرز (reuters.com)‘ نامی نیوز ایجنسی کی جاری کردہ خبر (اِس بات کی وضاحت کی گئی ہے کہ ”کورونا کی نئی قسم تیزی سے نہیں پھیل رہی بلکہ اَمریکہ میں کورونا وائرس کی پرانی قسم ہی سے متاثرہ مریضوں کی تعداد زیادہ ہے۔“ اِدارے کی جانب سے یہ بھی کہا گیا ہے کہ ”جرثوموں (وائرسیز) سے لاحق ہونے والی بیماریاں اور انسان کائنات کی تخلیق سے ساتھ ساتھ چل (ہم زمین) رہے ہیں اور جسمانی یا گردوپیش میں صفائی کا خیال رکھا جائے یعنی صحت مند طرز زندگی اپنانے سے اِس بات کا امکان بڑی حد تک کم ہو جاتا ہے کہ کوئی وائرس اِس حد تک سرایت کر جائے کہ اُس سے انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہوں۔ امریکی ادارے کی جانب سے عوام کو متنبہ کیا گیا ہے کہ .... ”کورونا وائرس جو سال 2019ءمیں ظاہر ہوا تھا اور جس کی وجہ سے کئی ممالک میں ’لاک ڈاو¿ن‘ کرنا پڑا‘ اُس کے منفی اثرات اَب بھی جاری ہیں اور عالمی معیشت اُس شدت کی کورونا وبا سے ’تاحال صحت یاب‘ نہیں ہو سکی ہے۔“ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا کورونا وائرس یا اِس قسم کا کوئی بھی دوسرا جرثومہ دنیا کے لئے دوبارہ اُسی نوعیت کا خطرہ بن سکتا ہے کہ جس کی وجہ سے ’لاک ڈاو¿ن‘ کرنا پڑے اور بڑے پیمانے پر اموات ہوں؟ اِس سوال کا جواب ’نفی‘ میں ہے۔ صحت کے عالمی اِداروں کی طرف سے ہر روز وضاحت جاری کی جا رہی ہے کہ ’کورونا وبا‘ کی طرح کسی بھی وبا کے پھیلنے کا خطرہ نہیں۔ امراض کے بارے میں تحقیق کرنے والے ادارے اور ماہرین اِس بات سے بھی خبردار کر رہے ہیں کہ بہترین حکمت عملی یہی ہے کہ جراثیموں سے بچنے کی کوشش کی جائے۔ کورونا وبا کے وقت جو اِحتیاطی تدابیر (SOPs) وضع کی گئی تھیں اگر اُن پر آج بھی عمل درآمد کیا جائے تو اِس بات کا امکان بہت ہی کم رہ جاتا ہے کہ کوئی صحت مند انسان کسی جرثومے سے متاثر ہو کر موت کے منہ میں چلا جائے۔توجہ طلب ہے کہ سوشل میڈیا پر ’غیرمصدقہ اطلاعات‘ کو ’مصدقہ معلومات‘ بنا کر پیش کیا جاتا ہے اور اِن پیغامات سے وہ لوگ زیادہ اثر لیتے ہیں جو ایک تو انگریزی زبان نہیں جانتے یا انگریزی زبان جاننے کے باوجود انٹرنیٹ کے ذریعے خود تحقیق نہیں کرتے اور بات کی تہہ تک نہیں پہنچتے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو فطرت ’سازشی نظریات‘ کو پسند کرتے ہیں اور ایسی بیانات پر فوری یقین کر لیتے ہیں جنہیں بنانے میں حقائق سے زیادہ سنسنی خیزی کو شامل کیا گیا ہو۔ بالخصوص یوٹیوب اور فیس بک چینلز پر مقبولیت حاصل کرنے کے لئے کسی خبر کے خاص حصے کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور خبر دیتے ہوئے اُس کے ذرائع (sources) کا ذکر نہیں کیا جاتا یا پھر ایسے ذرائع کا ذکر کیا جاتا ہے جو مستند نہیں ہوتے۔ اِس مرحلہ فکر پر اَدویہ ساز اِداروں کی کاروباری حکمت ِعملیاں بھی غیرمصدقہ معلومات پھیلانے میں پیش پیش ہیں۔ خلاصہ¿ کلام یہ ہے کہ دنیا کو کسی وبا سے زیادہ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کی وبا نے گھیر رکھا ہے اور اِس کی وجہ سے ایک طرح کا اضطراب پھیلا ہوا ہے جس میں اچھے خاصے پڑھے لکھے اور معقول افراد بھی کسی حد تک یقین کر لیتے ہیں۔ سوشل میڈیا صارفین کو چاہئے کہ جب بھی اُن تک کوئی نئی‘ سنسنی خیز‘ اور انتہائی اہم خبر کی صورت معلومات پہنچے تو اُسے اپنے آپ تک محدود رکھیں اور اُس وقت تک اپنے دوست احباب یا عزیز و اقربا کو ارسال (share) نہ کریں جب تک کہ اُس کی تصدیق نہ کر لیں۔ اگر کوئی سوشل میڈیا صارف نہیں جانتا کہ وہ کسی معلومات کے درست یا غلط (فرضی) ہونے کی تصدیق (fact-check) کیسے کر سکتا ہے تو اُسے چاہئے کہ خبر کی صورت ملنے والی معلومات کو خود تک محدود رکھے اور سنسنی پھیلانے کا حصہ نہ بنے ۔