عالمی موسمیاتی کانفرنسوں میں‘ کرہ¿ ارض پر بسنے والے 8 ارب سے زائد لوگوں کے مستقبل کے بارے میں اہم فیصلے کئے جاتے ہیں لیکن ایسے اقدامات میں سرمایہ کاری نہیں کی جاتی جن کی وجہ سے مضر ماحول محرکات میں تخفیف ہو۔ یہ پاکستان جیسے ممالک کے لئے بدقسمتی کی بات ہے جو کم مالی وسائل اور ناکافی ادارہ جاتی صلاحیت کی وجہ سے ماحول دوست سوچ اور اقدامات کو عملی جامہ پہنانے کے قابل نہیں ہیں۔ ماحولیاتی مسائل سے نمٹنے کے لئے سرمایہ دار ممالک نے سر جوڑ کر 571 ارب ڈالر ماحولیاتی امداد جمع کرنے کا وعدہ کیا لیکن صرف پچاس ارب ڈالر ہی جمع ہو سکے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ ”ترقی پذیر ممالک کو اِس وقت ستر ارب ڈالر سالانہ کی ضرورت ہے جو سال 2023ءتک بڑھ کر ایک سو چالیس سے تین سو ارب ڈالر تک پہنچ سکتی ہے تاہم تلخ حقیقت یہ ہے کہ وہ ممالک جو آب و ہوا کی تبدیلی سے زیادہ متاثر ہیں‘ انہیں آفات سے نمٹنے یا تیاری کرنے کے لئے فی کس ایک ڈالر سے بھی کم ملتے ہیں۔ مثال کے طور پر پاکستان کو کلائمیٹ پروف کے لئے حسب آبادی دس ارب ڈالر کی ضرورت ہے جو اس کی مجموعی جی ڈی پی کے سات فیصد کے مساوی ہے اور ظاہر ہے کہ پاکستان کے پاس اِس قدر مالی وسائل نہیں ہیں تاہم قابل ذکر ہے کہ ’لیونگ انڈس انیشی ایٹو‘ جیسے اقدامات کے ساتھ نیشنل ایڈیپٹیشن پلان (این اے پی) متعارف کرایا گیا ہے لیکن وسائل اور صلاحیت کا فرق بہت بڑا ہے اور پاکستان کو یہ خلا¿ ختم کرنے کے لئے مقامی سطح پر جدید میکانزم تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ اس فرق کو پُر کرنے کا ایک طریقہ یہ ہے کہ پالیسی مراعات کے ذریعے نجی اور کاروباری شعبے کو شامل کیا جائے۔ زراعت کا شعبہ ہماری معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے لیکن یہ آب و ہوا کے اثرات کے لئے انتہائی غیرمحفوظ ہے اگرچہ صنعتیں اپنا کاربن فٹ پرنٹ کم کرنے کے لئے اقدامات کر رہی ہیں لیکن اِس سلسلے میں تیز تر کوششیں کرنے کی ضرورت ہے۔ ’پی ڈبلیو سی‘ اور ’ڈبلیو ای ایف‘ کی تحقیق اس بات پر زور دیتی ہے کہ آب و ہوا کی تبدیلی کو اپنانا صرف ماحولیاتی تشویش نہیں ہے۔ آب و ہوا کے اثرات کی وجہ سے معاشی نقصانات روکنا بھی کاروباری ضروری ہے جس سے آمدنی کے نئے ذرائع تلاش کئے جا سکتے ہیں۔ بچت کی جائے تو طویل مدتی استحکام یقینی بنایا جا سکتا ہے اور ماقحولیاتی عدم تحفظ ہی وہ بھلائی ہے جس کے ذریعے صرف قلیل مدتی نہیں بلکہ طویل المدتی اہداف حاصل کئے جا سکتے ہیں۔ تحفظ ماحول کے لئے بیانیہ تشکیل دینے کی ضرورت ہے ایک ایسا بیانیہ جس کے تحت کرہ¿ ارض کا مستقبل محفوظ ہو سکے۔