ژرف نگاہ .... شبیرحسین اِمام
چودہ ستمبر دوہزار تیئس(ستائیس صفر المظفرچودہ سو پینتالیس ہجری)
گھر گھر کتاب : ایک خواب
مطالعے کے لحاظ سے جاری کردہ عالمی اعدادوشمار کے مطابق بھارت دنیا کا سرفہرست ملک ہے جہاں کے خواندہ افراد کی ہفتہ وار مطالعے کی اوسط 10 گھنٹے 42 منٹ ہے جبکہ تھائی لینڈ 9 گھنٹے چوبیس منٹ‘ چین 8 گھنٹے‘ فلپائنز 7 گھنٹے 36 منٹ‘ مصر 7 گھنٹے 30 منٹ‘ چیکوسلواکیہ 7 گھنٹے 24 منٹ‘ روس 7 گھنٹے 6 منٹ‘ سویڈن 6 گھنٹے 54 منٹ‘ فرانس 6 گھنٹے 54 منٹ‘ ہنگری 6 گھنٹے 48 منٹ اُور عالمی فہرست میں گیارہویں نمبر پر سعودی عرب واحد اسلامی ملک ہے جہاں کے خواندہ افراد ہر ہفتے اوسطاً 6 گھنٹے 48 منٹ مطالعہ کرتے ہیں۔
ذہن نشین رہے کہ یہاں جس مواد کے مطالعے کی بات ہو رہی ہے وہ مذہبی کتب نہیں اُور دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب‘ انٹرنیٹ پر دنیا کی سب سے زیادہ تلاش (search) کی جانے والی کتاب کے علاؤہ دنیا کی کسی بھی دوسری کتاب کے مقابلے کسی بھی کتاب کے سب سے زیادہ تلاش کئے جانے والے موضوعات بھی قرآن مجید ہی سے متعلق ہیں۔ قرآن مجید کا ایک معجزہ اِس کا ’حفظ (ازبر)‘ کرنا بھی ہے‘ اُور یہ اعزاز دنیا کی بہت ہی کم مذہبی و غیرمذہبی کتب کو حاصل ہے کہ اُن کے پہلے حرف سے لیکر آخری حرف تک اُور زیر زبر کے فرق کے بغیر اُسے چلتے پھرتے بھی پڑھا جاتا ہے لہٰذا مطالعہ کے لحاظ سے قرآن مجید کا مقابلہ کسی بھی دوسری کتاب سے نہیں ہو سکتا لیکن اِس مرحلۂ فکر پر جس مطالعے کی بات ہو رہی ہے وہ دنیاوی علوم اُور اِن سے متعلق تحقیقات و تخلیقات سے ہے۔ توجہ طلب ہے کہ جن معاشروں کتب بینی (مطالعے) کی عادت سرایت کر چکی ہے وہاں کتابوں کی اشاعت بھی زیادہ ہے کیونکہ کتابوں کی مانگ کے سبب اِنہیں لکھنے (رائٹرز) اُور لکھوانے والے (پبلشرز) دونوں ہی ’مارکیٹ‘ پر نظر رکھتے ہیں اُور بہتر سے بہتر مواد تخلیق کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ پاکستان میں کتب بینی کیوں زوال پذیر ہے اُور نصابی کتب کے علاو¿ہ طلبہ کو مطالعے کی عادت کیوں نہیں جبکہ نصابی تعلیم مکمل کرنے کے بعد ’کتب بینی‘ کو ضروری تو سمجھا جاتا ہے لیکن اِس ’ضروری‘ پر عموماً عمل درآمد ہوتا دکھائی نہیں دیتا یہی وجہ ہے کہ پشاور جہاں دنیا بھر معروف و غیرمعروف مصنفین کی کتب خریدنے والوں کا تانتا بندھا ہوتا تھا آج کتب گھر اُور کتب خانے اُجاڑ ہیں۔ خواندہ ہونے والے افراد کی اکثریت اُور عوام الناس نے بالعموم مطالعے کی عادت شائع شدہ کتاب (hard-copy) سے موبائل فون پر دستیاب کتب (soft-copy) پر منتقل کر لی ہیں جس کی ایک وجہ ’قوت خرید‘ میں کمی بھی ہے۔
ایک ایسی صورتحال جس میں عوام کو دو وقت کی روٹی اُور بودوباش کے ماہانہ اخراجات میں مسلسل اضافے کا سامنا ہے اُور مہنگائی میں ردوبدل اب سال بہ سال (قومی و صوبائی بجٹ) کے مواقعوں پر نہیں ہوتا بلکہ یہ ایک معمول بن گیا ہے اُور اب گھنٹوں میں قیمتیں بدل جاتی ہیں اُور جہاں ہفتوں میں پیٹرولیم مصنوعات کی گرانی اُور مہینے بعد بجلی و گیس جیسے بنیادی یوٹیلٹی کے نرخ بدل رہے ہوں وہاں کتب خرید کر مطالعہ ممکن نہیں رہتا۔ تجویز ہے کہ جس طرح ’آن لائن خریداری‘ کے ذریعے گھر بیٹھے کچھ بھی منگوایا جا سکتا ہے وہیں ’آن لائن لائبریری‘ کے ذریعے ایسا ’کتب خانہ‘ تشکیل دیا جا سکتا ہے جو کتب کی ’سافٹ کاپیز (pdf)‘ کی بجائے اُن کی ہارڈ کاپیز فراہم کر سکے۔ یوں موبائل فون ایپ اُور ویب سائٹ کے ذریعے کوئی بھی صارف ”گھر گھر کتاب“ کے عنوان سے دی جانے والی سہولت سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔
پشاور میں اِن دنوں عالمی شہرت یافتہ ملکی و غیرملکی ذرائع ابلاغ کے ماہرین مختلف تنظیموں سے وابستہ پرنٹ و الیکٹرانک صحافیوں اُور غیروابستہ سوشل میڈیا مہم جو افراد کی تربیت کے لئے بمقام شیلٹن گیسٹ ہاؤس‘ آبدرہ روڈ‘ یونیورسٹی ٹاؤن‘ مقیم ہیں۔ تربیت کا یہ دو مراحل میں ترتیب دیا گیا ہے۔ پہلے سلسلے میں گیارہ سے تیرہ ستمبر صحافیوں جبکہ دوسرے مرحلے میں پندرہ سے سترہ ستمبر ابلاغ کے لئے سوشل میڈیا کا استعمال کرنے والوں کی تعلیم و تربیت کا اہتمام کیا گیا ہے۔ معمولات میں سرگرداں صحافیوں کے لئے اِس قسم کے تربیتی مواقع تازہ ہوا کا جھونکا ہوتے ہیں‘ جن کے ذریعے اُنہیں نہ صرف اپنی صحافتی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں مدد ملتی ہے بلکہ خبرنگاری یا تجزئیات میں موضوعات و ترجیحات کے انتخاب میں سماجی و سیاسی مسائل کے بارے میں سوچنے‘ سمجھنے اُور ایک دوسرے سے تبادلۂ خیال کا موقع ملتا ہے۔ دیگر بہت سی تربیتی مواقعوں (ورکشاپس) کے مقابلے ورکشاپ کے میزبان ’اِنڈیویجول لینڈ پاکستان (individualland)‘ نے پاکستان میں امریکی مشن کی مالی و تکنیکی مدد سے جو ’3 روزہ تربیتی خاکہ‘ تشکیل دیا تھا اُس کی خاص بات یہ تھی کہ اِس میں غیرمرئی طور پر (یعنی غیرمحسوس انداز سے) صحافیوں کو مطالعے کی اہمیت بارے متوجہ کیا گیا۔ اُمید ہے کہ تین روز تک باسہولت تربیت سے مستفید ہونے والے پیشہ ور صحافی تادیر تجاویز اُور اَسباق نہ صرف یاد بلکہ پیش نظر بھی رکھے جائیں گے۔ تربیتی ورکشاپ کے شرکا کو ایک کتاب بھی مطالعہ کرنے کے لئے "تجویز" کی گئی لیکن اُس کے بارے میں ہینڈآوٹس تقسیم نہیں کئے گئے
اِس مرحلۂ فکر پر بنیادی سوال یہ ہو سکتا ہے کہ ’کتب بینی‘ کو بطور عادت کس طرح اپنے روزمرہ معمولات میں نہ صرف شامل بلکہ اِسے رہن سہن کا حصہ بھی بنایا جائے؟ تو اِس کے لئے سب سے پہلے ’مطالعے کے اہداف‘ مقرر کرنا ہوں گے۔ اِس بات کا تعین انتہائی ضروری ہے کہ کسی موضوع سے متعلق آپ کی دلچسپی کا معیار کیا ہے اُور اِس پسند و ناپسند کے دستیاب وسائل سے انتخاب کس طرح کیا جائے۔ کتاب سے اُنسیت صرف اُسی صورت ممکن ہے جبکہ اِس سوال کا جواب تلاش کیا جائے کہ مطالعے کے ذریعے کوئی قاری کیا حاصل کرنا چاہتا ہے اُور کیا قاری تفریح‘ علم میں اضافے‘ فکر و عمل کی نشوونما‘ شخصیات سازی‘ ذاتی ترقی یا اِن سب کے مرکب کے طور پر ضروری ہونے کے تصور (جیسے پہلوو¿ں) سے اتفاق بھی رکھتا ہے؟ کتب بینی سے متعلق ذاتی دلچسپی کے بارے میں کوئی قاری کتنا واضح ہوگا اُسی قدر اُسے متعلقہ یعنی اپنی دلچسپی کے مطابق کتابوں کے انتخاب میں مدد ملے گی۔ کتب بینی کی عادت اپنانے کے لئے دوسری اہم بات کسی کتاب کا فوری انتخاب نہیں کہ اپنی پسند کی کوئی ایک کتاب اُٹھا کر اُسے اُٹھتے بیٹھتے پڑھنا شروع کر دیا جائے لیکن دستیاب کتب کی ’فہرست‘ بنانا بھی ضروری ہے اُور اگر یہ مرحلہ طے کر لیا گیا تو اِس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ایک کتاب کے بعد دوسری کتاب کے مطالعے کی طلب محسوس ہو گی اُور یوں مطالعے کا لائحہ عمل (روڈ میپ) منظم انداز میں کسی رہنما یا رہنما اصول کی طرح مددگار ثابت ہوگا۔ تیسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ کتب بینی کے لئے حقیقت پسندانہ اہداف مقرر کئے جائیں اُور خود پر جبر یا سختی نہ کی جائے بلکہ ہر دن یا ہفتے میں کسی کتاب کا ایک باب یا خاص تعداد میں صفحات پڑھنے کے معمول سے کتب بینی شروع کی جائے۔ قاری محسوس کرے گا کہ آہستہ آہستہ اِس کتب بینی کے ہدف میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے کیونکہ ذہنی آمادگی اُور دلچسپی وقت کے ساتھ بڑھے گی۔ جس طرح جسم کو خوراک اُور پانی کی ضرورت ہوتی ہے اُور اِس ضرورت کو ذائقے اُور نفاست کے ساتھ اگر پورا کیا جائے تو انسانی زندگی کا یہی عمل فوری ردعمل کے طور پر ’مہذب نتائج‘ دے گا۔ چوتھی اہم بات مطالعے کا معمول یعنی مطالعے کے لئے کسی خاص وقت کا انتخاب کرنا ہے اُور پھر اِس انتخاب والے وقت کی پابندی کرنی ہے۔ یہ وقت الصبح سے لے کر رات سونے سے پہلے تک کچھ بھی ہو سکتا ہے اُور اِسے وقفوں وقفوں میں بھی جاری رکھا جا سکتا ہے۔ طبی ماہرین کھانے پینے کے دوران کوئی بھی دوسرا کام کرنے سے منع کرتے ہیں لیکن کھانا مکمل کرنے کے بعد اگر قہوہ‘ کالی چائے یا مشروبات کا انتظار ہو اُور کچھ مہلت ملے تو ایسے وقت میں جبکہ جسم کو خوراک ہضم کرنے کے لئے آرام کی ضرورت ہوتی ہے تو استراحت (قیلولہ) کرتے ہوئے کسی آرام دہ جگہ اُور آرام دہ حالت میں کتب بینی کی جا سکتی ہے لیکن مطالعے کو ’مستقل مزاجی‘ کے ساتھ عادت بنانا اِس سلسلے میں کامیابی کی کلید ہے۔
ہر موضوع (نکتۂ نظر) قابل غور ہونے کے ساتھ ’وقعت‘ رکھتا ہے اُور ہر کتاب لائق مطالعہ (اچھی) ہوتی ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ مطالعے کی عادت اپنانے والے ابتدا میں صرف اُنہی موضوعات سے متعلق کتب کا انتخاب کریں جو اُن کے میلان (ذاتی پسند کے موضوعات یا مصنفین) سے تعلق رکھتی ہوں۔ علم‘ کامیابی اُور ذریعہ¿ شعور ہے جسے حاصل کرنے کے لئے ’حقائق کی کھڑکی (دریچہ)‘ کھولنا درحقیقت بذریعہ کتاب ممکن ہے اِسی کھڑکی (دریچے) سے آگاہی کی روشنی اُور مثبت و تعمیری سوچ پروان چڑھ سکتی ہے‘ تعصبات دلائل سے شکست کھا سکتے ہیں اُور رنگ و نسل‘ جنس و صنف سے جڑے تعصبات کم ہو سکتے ہیں۔ آزمائش شرط ہے کہ کتاب کی کھڑی سے تازہ ہوا کے جھونکے دل و ذہن کو منور اُور روح کو سیراب و شاداب کر سکتے ہیں۔
....