اسلام آباد ہائیکورٹ میں جیل ٹرائل اور حج تعیناتی کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پرجسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست تھی کہ انہیں اسلام آباد آنے کیلئے سکیورٹی دی جائے، چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر ریاست نے کہاکہ سکیورٹی کی ضرورت نہیں،یہ آپ کے کولیگز آپ کو بتائیں گے، خیر آگے چلتے ہیں،اس کیس میں جو سیکشن لگی ہے اس کے مطابق سزائے موت ہو سکتی ہے،اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جی معلوم ہے، مگر میرا نہیں خیال سزائے موت ہو۔
تفصیلات کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی جیل ٹرائل اور جج تعیناتی کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اورجسٹس ثمن رفعت پر مشتمل 2رکنی نے بنچ سماعت کی،چیئرمین پی ٹی آئی کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ پیش ہوئے، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور دوگل بھی پیش ہوئے،ایف آئی اے پراسیکیوٹر ذوالفقار نقوی، سپیشل پراسیکیوٹر شاہ خاور اور رضوان عباسی بھی عدالت میں پیش ہوئے،چیئرمین پی ٹی آئی کی بہنیں اور شاہ محمود قریشی کی بیٹی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ گزشتہ سماعت کے بعد ہائیکورٹ سے اڈیالہ جیل گیا،جیل کے دروازے سے عدالت کے کمرے تک پہنچنے میں 3گھنٹے لگے، جہاں سائفر کیس کی سماعت ہورہی تھی وہاں پہنچنے تک متعدد رکاوٹیں اورچیک پوائنٹس ہیں۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ راجہ صاحب نے دلائل دے دیئے، عدالت کو سوالات پر مطمئن کرنے کی کوشش کروں گا، پہلے تو اس درخواست کے قابل سماعت ہونے کے معاملے پر عدالت کی معاونت کروں گا۔
اٹارنی جنرل کی طرف سے شاہ محمود قریشی کی درخواست ضمانت پر چیف جسٹس کے فیصلے کا حوالہ دیاگیا،اٹارنی جنرل نے چیف جسٹس عامر فاروق کا گزشتہ روز کا فیصلہ پڑھ کر سنایا.
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ جب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست پر فیصلہ آیا تب وہ اٹک جیل میں تھے،اٹک جیل سے عدالت پیش کرنے کیلئے سکیورٹی مسائل ہو سکتے تھے،چیئرمین پی ٹی آئی کو اب اڈیالہ جیل منتقل کیا جا چکا ہے، صورتحال بدل چکی ہے، ایک اور کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی 2 رکنی بنچ کے رو برو پیش ہوئے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے کہاکہ یہ اچھے آدمی ہیں، خود کہہ رہے پراسیکیوشن میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ پراسیکیوشن کی جانب سے ان کیمرہ کاررروائی کی استدعا کی گئی تھی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ اس پر کیا آرڈر ہوا؟ وہ بہت اہم ہے، عدالت نے تو کہا ہے اگر حساس دستاویزات آئیں تو صرف اس حد تک ان کیمرہ کارروائی ہو گی۔
اٹارنی جنرل نے کہاکہ جیل ٹرائل اور ٹرائل کے دوران پبلک کی عدم موجودگی 2مختلف باتیں ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے استفسار کیا کہ ٹرائل جج کی طرف جیل ٹرائل کی درخواست تھی؟پہلی بار ان کیمرہ کی درخواست صرف ایک بار کیلئے تھی؟
اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی ! ہر سماعت کیلئے الگ الگ خطوط لکھے گئے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب! ہم نے تو ویسے ہی سوال پوچھے تھے، آپ نے اس کی سمری ہی بنا دی۔
اٹارنی جنرل جیل ٹرائل سے متعلق کابینہ کی منظوری کا ڈاکیومنٹ عدالت میں پیش نہ کرسکے اور کہا کہ کابینہ کی منظوری موجود ہے ،میں زبان دیتا ہوں وہ پیش کردوں گا،کابینہ کی منظوری سے پہلے دو اہم ایونٹس ہوئے،سات نومبر کو تین ،چودہ نومبر کو دو گواہان کے بیان ریکارڈ کئے گئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی درخواست تھی کہ انہیں اسلام آباد آنے کیلئے سکیورٹی دی جائے، چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست پر ریاست نے کہاکہ سکیورٹی کی ضرورت نہیں،یہ آپ کے کولیگز آپ کو بتائیں گے، خیر آگے چلتے ہیں،اس کیس میں جو سیکشن لگی ہے اس کے مطابق سزائے موت ہو سکتی ہے۔
اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جی معلوم ہےمگر میرا نہیں خیال سزائے موت ہو۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جب 3گواہان کے بیان ریکارڈ کئے گئے وہ ویسی ہی صورتحال میں ہوئے جیسے فرد جرم ہوئی؟
اٹارنی جنرل نے کہاکہ جی! وکلا کو عدالت میں جانے کی اجازت تھی،جیل میں عدالت کیلئے ویسی سہولیات موجود نہیں،جس کمرے میں پہلے سماعت ہوتی رہی اس میں صرف 15افراد کی گنجائش تھی،سائفر کیس میں جیل ٹرائل اوپن ٹرائل ہے،کورٹ روم چھوٹا ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ کم افراد کی گنجائش کے باعث وہ کلوز ٹرائل ہے،اب جیل میں کورٹ پروسیڈنگ اور ٹرائل کے لیے پہلے کی نسبت بڑا کمرہ مل گیا ہے۔
اسلام آباد ہائیکورٹ نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل روکنے کے حکم میں 20نومبر تک توسیع کردی،جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ پیر کی صبح 11بجے دوبارہ سماعت کریں گے۔