اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل نے جواب الجواب دیئے اور اب اٹارنی جنرل منصور اعوان کے دلائل جاری ہیں۔ عدالت نے ریمارکس دیے کہ حکومتی رپورٹ میں عمران خان کی جان کو خطرے کا ذکر نہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس گل حسن کی سربراہی میں 2 رکنی بینچ نے سماعت کی، ڈویژن بینچ میں جسٹس ثمن رفعت امتیاز بھی شامل ہیں۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان عدالت کے سامنے پیش ہوئے تو عدالت نے ریمارکس دیئے کہ جیل ٹرائل سے متعلق اختیارعدلیہ کے پاس ہے، ایگزیکٹونے اس پر صرف عمل کرانا ہوتا ہے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم کے دلائل
عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا کو ہدایت کی کہ پہلے اٹارنی جنرل کی اپیل پر اعتراضات سے متعلق دلائل دیں۔
وکیل سلمان اکرم راجا نے مؤقف پیش کیا کہ اسلام آباد میں سیکڑوں ماتحت عدلیہ کے ججز موجود ہیں، لیکن حکومت نے مخصوص جج کو آفیشل سیکرٹ ایکٹ عدالت کا چارج دیا۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے ریکارڈ پیش کیا تھا، تعیناتی کیلئے کارروائی کا آغازاسلام آباد ہائیکورٹ سے ہوا۔
اٹارنی جنرل نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ میری رائے میں یہ انٹرا کورٹ اپیل قابل سماعت ہی نہیں، جان کے خطرے کے پیش نظر جیل ٹرائل کا نوٹی فکیشن ہوا، 2 اکتوبر کو سائفر کیس کا چالان جمع ہوا، اور 23 اکتوبر کو ملزمان پر فرد جرم عائد کی گئی۔
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ یہ انٹرا کورٹ اپیل قابل سماعت ہی نہیں، اسے مسترد کیا جائے۔
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت سے کہا کہ ہم اٹارنی جنرل کےاٹھائے گئے نکات پرجواب دیں گے، عدالت کی جانب سے طلب دستاویز جمع نہیں کرائی جا رہیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ کیس میں لگی سیکشن کے مطابق سزائےموت ہو سکتی ہے۔ جس پر اٹارنی جنرل نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ جی معلوم ہے مگر میرا نہیں خیال سزائے موت ہو۔
سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اٹارنی جنرل تو خود کہہ رہے پراسیکیوشن میں کامیاب نہیں ہوں گے۔
وکیل چیئرمین پی ٹی آئی نے کہا کہ ہمیں تودستاویزات بھی نہیں دکھائے گئے، شاہ محمود قریشی کو عدالت کے سامنے 19 اگست کو لایا گیا تھا، جب کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو 16 اگست کو پیش نہیں کیا گیا تھا۔
جسٹس گل حسن اورنگزیب نے وکیل سلمان اکرم راجا سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ پہلے اپیل قابلِ سماعت ہونے پر دلائل دیں، اٹارنی جنرل نے کچھ دستاویزات دکھائی ہیں جس میں اسپیشل رپورٹس بھی ہیں، سی سی پی اوکا لیٹر بھی ان دستاویزات کا حصہ ہے، جس کے مطابق سیکیورٹی خطرات کے باعث عمران خان کے جیل ٹرائل کا فیصلہ ہوا۔
وکیل سلمان اکرم نے اعتراض اٹھایا کہ مجھے اس لیٹرکا تب پتہ چلا ہے جب اٹارنی جنرل نے دستاویزات جمع کرائے۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفکیشن میں لائف تھریٹ کا ذکر بھی موجود نہیں، وزارت داخلہ کی اسپیشل رپورٹ کا ذکر ہے۔
اٹارنی جنرل منصور اعوان کے دلائل
وکیل سلمان اکرم راجا کے بعد اٹارنی جنرل منصور اعوان روسٹرم پر آ گئے، اور دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کا ٹرائل 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد ہونے سے شروع ہوا، پہلے تمام عدالتی کارروائی پری ٹرائل پروسیڈنگ تھی۔
اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ عمران خان کے ریمانڈ کیلئے جج کو جیل جانا پڑا تو انہیں اس بات کا احساس تھا۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگ زیب نے ریمارکس دیے تھینک یو مسٹر اٹارنی جنرل۔ عدالت نے استفسار کیا کہ ٹرائل کورٹ کے جج نے کس مواد کی بنیاد پر پہلا خط لکھا، آپ کو اِس نکتے پر عدالت کو مطمئن کرنا ہو گا۔
وکیل سلمان اکرم راجا کے دلائل
عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت میں استدعا کی کہ جج کا 2 اکتوبر کو لکھا گیا خط بھی پڑھنا چاہتا ہوں، خط میں پوچھا گیا کہ ملزم کو پیش کرنے میں مشکلات تو نہیں، جج نے کہا کہ جو آپ کا حکم وہی میری رضا۔
وکیل سلمان اکرم نے کہا کہ سنگل بینچ نے اہم کیس میں طویل عرصہ فیصلہ محفوظ رکھا، ہم انتظار کرتے رہے، اس دوران مزید نوٹی فکیشنز جاری ہوئے، اب ہر سماعت پر 3 گواہوں کے بیانات قلمبند کیے جا رہے ہیں، 15 نومبر تک ٹرائل کورٹ کی کارروائی غیر قانونی ہے۔
جسٹس میاں گل نے ریمارکس دیئے کہ ہم صرف جیل ٹرائل اور جج کی تعیناتی دیکھ رہے ہیں۔ عدالت نے سائفر کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کر دیا۔
وقفے کے بعد وکیل سلمان اکرم راجہ نے جوابی دلائل جاری رکھے، اور کہا ہے کہ جیل ٹرائل میں فیملی ممبرز کو بھی سماعت دیکھنے کی اجازت نہیں، جیل ٹرائل فیملی اور پبلک کو دور رکھنے کیلئے ہی کیا جا رہا ہے، استدعا ہے کہ پہلے ہو چکا ٹرائل کالعدم قرار دیا جائے، بغیر دستاویزات فراہم کئے فرد جرم عائد کی گئی۔
رجسٹراراسلام آباد ہائی کورٹ سردارطاہر صابر بینچ کے سامنے پیش ہوئے تو جسٹس میاں گل نے استفسار کیا کہ جج ابوالحسنات کی تعیناتی کے حوالے سے پوچھنا تھا، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے جج کی تعیناتی کا پراسیس کیا تھا۔
عدالت نے استفسار کیا کہ کیا جج کی تعیناتی کیلئے پہلا خط ہائیکورٹ نے لکھا، یا وزارت قانون نے جج کی تعیناتی کے پراسیس کا آغاز کیا۔
رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کمرہ عدالت سے چلے گئے۔ رجسٹرار ریکارڈ کا جائزہ لے کر عدالت کا عدالتی سوالوں کا جواب دیں گے۔
عدالت نے سائفر کیس کی کاروائی روکنے کے حکم میں کل تک توسیع کردی اور چیئرمین پی ٹی آئی کی انٹراکورٹ اپیل کی سماعت کل 11 بجے تک ملتوی کردی۔
عدالت نے خصوصی عدالت کے جج کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن اور چیئرمین پی ٹی آئی کو خطرات کی رپورٹس کل تک طلب کر لیں۔
16 نومبر کی سماعت
اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی سائفر کیس میں اپیل پر سماعت ہوئی، اپیل میں جج کی تعیناتی بھی کالعدم قرار دینے کی استدعا کی گئی تھی۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز نے اپیل پر سماعت کی، اٹارنی جنرل اور چیئرمین پی ٹی آئی کے وکلاء عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل کے دلائل
کیس کی سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کرتے ہوئے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیا۔ اور جسٹس عامرفاروق کا لکھا فیصلہ عدالت کے سامنے پڑھا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سنگل بینچ نے فیصلے میں کہا اوپن ٹرائل ہونا چاہیے۔ جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ ہم توقع کرتےہیں کہ آپ نےحکمنامہ پڑھاہوگا، ہمیں جیل ٹرائل کےنوٹیفکیشن اور پراسس بتائیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ اٹارنی جنرل صاحب ،ہم نے تو ویسے ہی سوال پوچھے تھے، آپ نے سمری ہی بنادی۔
اٹارنی جنرل جیل ٹرائل سے متعلق کابینہ کی منظوری کا ڈاکومنٹ عدالت میں پیش نہ کرسکے، اور مؤقف اختیار کیا کہ کابینہ کی منظوری موجود ہے، میں زبان دیتا ہوں وہ پیش کردوں گا، کابینہ کی منظوری سے پہلے دو اہم ایونٹس ہوئے، 7 نومبر کو 3 ، اور 14نومبر کو 2 گواہان کے بیان ریکارڈ کئے گئے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سوال کیا کہ جب تین گواہان کے بیان ریکارڈ کئے گئے وہ ویسی ہی صورتحال میں ہوئے جیسے فرد جرم ہوئی۔
اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ جی جی ، وکلا کوعدالت میں جانے کی اجازت تھی۔
عدالت نے دلائل سننے کے بعد سائفر کیس کا ٹرائل روکنے کے حکم میں پیر تک توسیع کردی اور کیس کی سماعت پیر تک ملتوی کردی۔
14 نومبر کی سماعت
14 نومبر بروز منگل اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیئرمین پی ٹی آئی کی اوپن کورٹ سماعت اور جج تعیناتی کیخلاف انٹراکورٹ اپیل پر سماعت ہوئی، جسٹس میاں گل حسن اورجسٹس ثمن رفعت امتیاز نے سماعت کی۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجہ اور ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد کیانی عدالت میں پیش ہوئے۔
اٹارنی جنرل نے دلائل کا آغاز کیا اور عدالت کو ٹرائل کی کارروائی سے متعلق آگاہ کیا۔ اٹارنی جنرل نے بتایا کہ وفاقی کابینہ نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کی منظوری دی، وفاقی کابینہ کی منظوری کا نوٹیفکیشن عدالت میں پیش کردیں گے۔
جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیئے کہ نوٹیفکیشن دیکھیں گے کہ کیا لکھا ہوا ہے۔ تمام ٹرائلز اوپن کورٹ میں ہوں گے اس طرح تو یہ ٹرائل غیر معمولی ٹرائل ہوگا۔
جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات دینے کی ضرورت ہے، وفاقی کابینہ نے دو دن پہلے جیل ٹرائل کی منظوری دی، کیا وجوہات تھیں کہ وفاقی کابینہ نے جیل ٹرائل کی منظوری دی، سب سے اہم سوال یہ ہے کہ منظوری سے پہلے ہونے والی عدالتی کارروائی کا سٹیٹس کیا ہوگا، کب کن حالات میں کسی بنیاد پر یہ فیصلہ ہوا کہ جیل ٹرائل ہوگا۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ خاندان کے چند افراد کے سماعت میں جانے کا مطلب اوپن کورٹ نہیں، جس طرح سائفر کیس میں فرد جرم عائد کی گئی اسے اوپن کورٹ کارروائی نہیں کہہ سکتے۔
چیئرمین پی ٹی آئی کے وکیل سلمان اکرم راجا نے عدالت کو بتایا کہ پانچ گواہ اس وقت بھی جیل میں بیانات ریکارڈ کرانے کے موجود ہیں۔
جسٹس میاں گل حسن نے ریمارکس دیئے کہ بادی النظر میں تینوں نوٹیفکیشنز ہائیکورٹ کے متعلقہ رولزکے مطابق نہیں۔
عدالت نے خصوصی عدالتوں کو سائفرکیس کی سماعت 16 نومبر تک روکنے کا حکم دیتے ہوئے حکم امتناعی جاری کردیا۔