لاہور ہائیکورٹ نے نگران وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر خارج کردی۔
لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس شاہد بلال حسن نے ایڈووکیٹ مقسط سلیم کی درخواست پر محفوظ فیصلہ سنا دیا۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ نگران وزیراعظم کی تقرری 90روز کی مدت مکمل ہونے کے بعد غیر موثر ہوچکی ہے۔ 15نومبر کو نگران وزیراعظم کی مدت مکمل ہوچکی ہے۔ آئینی طور پر انوار الحق کاکڑ نگران وزیراعظم نہیں رہے۔ نگران وزیراعظم کی مدت میں الیکشن کمیشن یا کسی آئینی عدالت نے توسیع نہیں کی۔ عدالت نگران وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کرے۔
عدالت نے نگران وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست ناقابل سماعت قرار دیکر خارج کردی۔
دوران سماعت سرکاری وکیل نے دلائل دیتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ آئین میں ایسا کچھ نہیں کہ نگران حکومت محض 90 دن کے لیے ہے، اگر ملک کا ایگزیکٹو نہیں ہوگا تو ملک چلے گا کیسے؟
وکیل درخواست گزار نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ سب کچھ قانون کے مطابق ہو، نگران وزیر اعظم کا بنیادی کام الیکشن کروانا ہے جو کہ وہ نہیں کروا رہے، وزیر اعظم اپنا تقدس کھو چکے ہیں، بی بی سی نے مجھ سے رابطہ کیا کہ اس معاملے کے حوالے سے مجھ سے جان سکیں۔
عدالت عالیہ نے ریمارکس دیئے کہ بی بی سی اس درخواست میں فریق نہیں، اس کا ہم سے کیا لینا دینا؟ آپ جا کر معلوم کریں کہ پاکستان کیوں بنا، کس نے بنایا، آپ ان چکروں میں پڑے ہوئے ہیں، آپ کا بی بی سی کا حوالہ مجھے پسند نہیں آیا۔
بعد ازاں لاہور ہائیکورٹ نے نگران وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
قبل ازیں لاہور ہائیکورٹ میں دائر دخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ نگران وزیراعظم کی تقرری 90 روز کی مدت مکمل ہونے کے بعد غیر مؤثر ہو چکی ہے، 15نومبر کو نگران وزیراعظم کی مدت مکمل ہو چکی ہے، آئینی طور پر انوار الحق کاکڑ نگران وزیراعظم نہیں رہے۔
درخواست گزار نے مزید کہا کہ نگران وزیراعظم کی مدت میں الیکشن کمیشن یا کسی آئینی عدالت نے توسیع نہیں کی، عدالت سے استدعا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ نگران وزیراعظم کو عہدے سے ہٹانے کا حکم جاری کرے۔