میڈیا کیلئے سائفر کیس کی سماعت دوبارہ کرنے کا انکشاف

سائفر کیس میں صحافیوں کے لئے کیس کی سماعت دوبارہ ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ جس میں ملزمان چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو بات کرنے کا بھی کہا گیا۔

آفیشیل سیکریٹ ایکٹ کے تحت قائم کی گئی خصوصی عدالت کے جج ابوالحسنات ذوالقرنین نے سائفر گمشدگی کیس کی سماعت اڈیالہ جیل میں کی۔

ملزمان چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو عدالت میں پیش کیا گیا ہے، عمران خان کی جانب سے بیرسٹر عمیر نیازی اور خالد یوسف چودھری ایڈووکیٹ جب کہ شاہ محمود کی جانب سے بیرسٹر فائزہ اسد ایڈووکیٹ پیش ہوئیں۔

پراسیکیوٹر سید ذوالفقار عباس نقوی اور اور اسپیشل پراسیکیوٹر رضوان عباسی بھی کمرہ عدالت میں موجود تھے۔

عدالت نے کی جانب جاری حکمنامے کے مطابق عوام، میڈیا کے ساتھ ساتھ دیگر افراد بھی کارروائی کے دوران موجود تھے، سی آر پی سی کی دفعہ 352 کے اطلاق پر عدالت نے پوری طرح عمل کیا، اور چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی کو بھی میڈیا کی موجودگی میں اپنی شکایات کے ازالے کے لیے بیان دینے کا موقع دیا گیا۔

کیس کی آئندہ سماعت 04 دسمبر 2023 کو ہوگی، جس میں عمران خان نیازی اور شاہ محمود قریشی کو کیس کو کاپیاں فراہم کی جائیں گی، جب کہ دونوں ملزمان کے وکلا درخواست پر دلائل دیں گے۔

کیس کی دوبارہ سماعت

دوسری جانب نجی ٹی وی کے صحافی ثاقب بشیر نے ایکس پر اعتراض اٹھاتے ہوئے لکھا کہ سائفر کیس کی آج کی جیل سماعت کے حکم نامے کی ایک بات سمجھ نہیں آئی، جس میں لکھا گیا ہے کہ ”پبلک ، میڈیا اور دوسرے لوگ“ سماعت کے دوران موجود تھے۔

صحافی کا کہنا تھا کہ عوام اور دوسرے لوگ کون تھے ؟ یہ کسی کو نہیں پتہ، اور اگر میڈیا کی بات کی جائے تو اسلام آباد ہائیکورٹ جرنلسٹس ایسوسی ایشن کے صدر رضوان قاضی ، سما ٹی وی سے یاسر حکیم اور اے آر وائی سے بابر ملک کو جب اجازت دی گئی تو اس وقت تک پونے گھنٹے کی سماعت ختم ہو چکی تھی اور آئندہ سماعت کی تاریخ بھی دی جاچکی تھی۔ اس وقت پراسیکوٹرز جیل عدالت سے نکل کر جا رہے تھے۔

ثاقب بشیر کے مطابق تینوں صحافی جب سماعت میں شرکت کے لئے جیل عدالت کی جانب جاررہے تھے تو انہیں راستے میں جج ابوالحسنات ملے۔ جو ان صحافیوں کو دیکھ کر دوبارہ عدالت میں آگئے اور پھر عمران خان اور شاہ محمود قریشی کو بولنے کا کہا، عمران خان بولے اور وہ رپورٹ ہوا۔

صحافی کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی میڈیا بی بی سی ، وائس آف امریکا، انڈیپنڈنٹ اردو اور پاکستانی میڈیا کے باقی رپورٹرز کو 4 گھنٹے انتظار کرا کے داخلے کی اجازت نہیں دی گئی۔