الیکشن عدلیہ کی نگرانی میں کرانے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ

پشاورہائیکورٹ نے الیکشن عدلیہ کی نگرانی میں کرانے سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا اورقراردیاکہ عدالت فیصلے دیگی کہ یہ درخواست قابل سماعت ہے یا نہیں،گزشتہ روز چیف جسٹس محمد ابراہیم خان اور جسٹس شکیل احمد پرمشتمل خصوصی بنچ نے معظم بٹ ایڈوکیٹ کی رٹ پر سماعت شروع کی تو اس موقع پرجسٹس شکیل احمد نے سوال اٹھایا کہ سپریم کورٹ کے حالیہ فیصلے کے بعد کیا ہم اس کیس میں سماعت جاری رکھ سکتے ہیں اور اگر رکھ سکتے ہیں تو کس قانون کے تحت کیونکہ اگر اس کیس کی سماعت جاری رکھتے ہیں تو اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ سپریم کورٹ نے بہت سے اہم نقاط کو 15دسمبر کے فیصلے میں واضح کیا ہے جبکہ چیف جسٹس نے کہا ہے کہ چونکہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آیا ہے اسلیے اسے نظرانداز نہیں کرسکتے ،یہ سب پر لازم ہے ۔ اس موقع پرصوبائی حکومت کیجانب سے ایڈوکیٹ جنرل خیبرپختونخوا عامر جاوید، ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل دانیال خان چمکنی، وفاقی حکومت کی جانب سے ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنااللہ جبکہ الیکشن کمیشن کے وکیل محسن کامران صدیق بھی پیش ہوئے ۔معظم بٹ ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کو معطل کیاہے اورپشاورہائیکورٹ کے کیس سے متعلق کچھ نہیں کہا گیا۔ انہوں نے بتایا کہ ڈی آر اوز کواس لیے چیلنج کیاہے کیونکہ حال ہی میں سینکڑوں کی تعداد میں 3ایم پی اوز کے آرڈرز ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسرز نے بطور ڈی سی جاری کیے ۔ اس موقع پر عدالت نے ایک نقطہ پر سوال اٹھایا کہ درخواست گزار وکیل نے ایک نوٹیفیکیشن کو چیلنج کیا ہے لہذا کیا ہم اس میں مداخلت کرسکتے ہیں تاہم فریقین کی باہمی رضامندی کے بعد عدالت نے قراردیا کہ اسی نقطے کو متعددنوٹیفیکیشنز تصور کیاجائے۔ معظم بٹ ایڈوکیٹ نے عدالت کو بتایا کہ آراوز اور ڈی آراوز کی تعیناتی بدنیتی پر مبنی ہے ہم کسی صورت یہ نہیں چاہتے کہ الیکشن ٹائم پرنہ ہوں۔ لاہورہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ نے معطل کیا ہے ۔ آئین کے تحت شفاف انتخابات ہونے چاہیے، ہمیں الیکشن سے کوئی مسئلہ نہیں بشرط یہ شفاف ،منصفانہ اور آئین کے مطابق ہو۔چیف الیکشن کمشنر کا کردار سب کے سامنے ہے وہ کس طرح پی ٹی آئی کے ورکرز کیخلاف ہونے والی کارروائیوں پر خاموش ہے ۔ گورنر، الیکشن کمیشن اور ایڈوکیٹ جنرل  اور نگران حکومت کیخلاف  رٹ درخواستیں دائر ہوچکی ہیں ۔انہوں نے بتایا کہ جن 3 ایم پی او 700آرڈرز والے افسران کو ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر تعینات کیا گیاہے ان سے کوئی خیر کی توقع نہیں ہے ۔ الیکشن عدالتی حکم پر ہورہے ہیں اورعدالت یہ کبھی نہیں چاہے گی کہ جمہوریت ڈی ریل ہواور لوگوں کے اربوں روپے جو الیکشن پر خرچ ہوتے ہیں وہ ضائع ہو۔ انہوں نے بتایا کہ آراوز اور ڈی آر اوز کی ٹریننگ کا عمل جاری ہے قانون کے مطابق دوماہ قبل ہی یہ معاملات طے کرنے چاہیے مگر ایسا نہیں ہوا جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ الیکشن کمیشن کے بعض معاملات میں عدالت مداخلت نہیں کرسکتی، ہمیں ایک خط موصول ہوا جس میں عدلیہ سے آراوز اور ڈی آر اوز کو لینا تھا تاہم پشاورہائیکورٹ نے انہیں ہدایت کی کہ اس سلسلے میں  نیشنل جوڈیشل کمیشن پالیسی میکنگ کمیٹی سے رابطہ کریں کیونکہ اس کمیٹی نے الیکشن میں عدلیہ کے کردار سے متعلق پابندی لگائی تھی اور وہ ہی اسکی اجازت دے سکتی ہے ۔درخواست گزاروکیل نے بتایا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے سے بہت اہم نقاط حل ہوگئے ہیں تاہم اگر عدلیہ سے یہ مشاور ت کرتے تو شفاف انتخابات اسی صورت ممکن ہوتے۔ چیف الیکشن کمیشن نے اپنے خلف کی خلاف ورزی کی ہے بلکہ سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں گورنر خیبرپختونخوا کو آئین توڑنے کا ذمہ دار بھی قراردیا ہے ۔ انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ عدالت بہت سی چیزوں پر آنکھیں بند نہیں کرسکتی۔ اگر عدالت اس میں نہ ہوتی تو آج الیکشن بھی نہ ہوتے۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل ثنااللہ نے عدالت کو بتایا کہ 9مئی کو ایک پارٹی کے ورکرز نے ملک کا بیڑہ غرق کردیا ، 3ایم پی اوز کے آرڈرز مجبورا اس وقت کے انتظامی افسران نے جاری کیے کیونکہ لوگ آپے سے باہر ہورہے تھے اور امن وامان کامسئلہ تھا۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اگر یہ انتظامی افسران کوئی ایسا حکم جاری کرتی جس سے شفاف الیکشن پر سوال اٹھے تو اس کو عدالتی نظرثانی کا حق حاصل ہے جبکہ جسٹس شکیل احمد نے درخواست گزار سے استفسار کیا کہ پہلے ہی الیکشن ایکٹ میں الیکشن سے قبل اور بعد میں آپکے پاس ایک remedyموجود ہے تو آپ کس طرح شفاف الیکشن پر سوالات اٹھا رہے ہیں ؟ ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ سپریم کورٹ نے اس ضمن میں واضح کیا ہے کہ آراوز اور ڈی آراوز کی تعیناتی الیکشن کمیشن کا اختیار ہے ،تمام ایڈوکیٹ جنرلز کو اس بارے میں نوٹس جاری ہواہے۔ اسی طرح یہ رٹ اب غیرموثر ہوگئی ہے کیا سپریم کورٹ کے حکم کے بعد عدالت اس  پر سماعت  کرسکتی ہے یقینا نہیں کرسکتی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کسی صورت سپریم کورٹ کے حکم کیخلاف نہیں جاسکتے اورہم نے اس کو دیکھنا ہے ۔ معظم بٹ نے عدالت کو بتایا کہ ہمارے خلاف مقدمات درج ہورہے ہیں حالات تبدیل ہورہے ہیں عدالت ہی ہمیں تحفظ دے سکتی ہے۔ جسٹس شکیل احمد نے اس موقع پر کہا کہ جوڈیشری ایک آزاد ادارہ ہے اسلیے قانون میں اسکے ساتھ مشاورت کا لفظ استعمال کیاگیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ بلوچستان ہائیکوٹ نے اس ضمن میں ریٹرنگ آفیسر دینے کی خواہش ظاہر کی تھی اس کا کیا ہوا جس پر محسن کامران صدیق نے بتایا کہ ابتدائی طور پر انہوں نے رضامندی ظاہر کی تاہم بعد میں معذرت کی گئی کیونکہ انکے پاس جوڈیشل افسران کی تعدادکم ہے۔ انہوں نے بتایا کہ چیف الیکشن کمشنر خود سارے عمل کی مانیٹرنگ کررہا ہے جبکہ ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ حال ہی میں پشاورہائیکورٹ نے علی امین گنڈاپورکے کیس میں چیف سیکرٹری پر اعتماد کا اظہار کیا ہے اورانہیں ہدایت کی کہ وہ تمام امور کی نگرانی کرے تاہم سات دسمبر کے بعد کسی پی ٹی آئی ورکر نے انکے ساتھ زیادتی کی شکایت چیف سیکرٹری یا الیکشن کمیشن کو نہیں کی ۔انہوں نے بتایا کہ جب سپریم کورٹ کا فیصلہ آگیا اسکے بعد کس طرح  ہائیکورٹ میں درخواست لائی جارہی ہے ۔ سپریم کورٹ کا فیصلہ سب کے سامنے ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ملکی امانت کا مسئلہ ہے، الیکشن قوم کی امانت ہوتی ہے ہم چاہتے ہیں کہ ایساکچھ نہیں ہو کہ ان پر سوالات اٹھے۔انہوں نے کہا کہ ہم کوئی ایسا فیصلہ نہیں دینگے جس سے یہاں مسائل پیدا ہوں۔ الیکشن کمیشن کے وکیل نے بتایا کہ الیکشن کمیشن نے تمام سیاسی تعیناتیاں ختم کی ہیں اورسارے امورکومانیٹرکیاجارہاہے اگرڈی آراوز کیخلاف کچھ ہے توہمیں بتایاجائے۔ کیونکہ اب ڈی آراوز ضلعی انتظامیہ کی حیثیت سے نہیں بلکہ ڈسٹرکٹ ریٹرنگ آفسیرز کی حیثیت سے کام کررہے ہیں اور وہ الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ رٹ اسلیے بھی قابل سماعت نہیں کیونکہ ایڈوکیٹ جنرل کونوٹسز جاری ہوئے ہیں اور اگر درخواست گزارضروری سمجھتا ہے تو وہ سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرسکتا ہے اوران سے استدعا کرے کہ ان کیسز کو سپریم کورٹ سنے۔ انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے ڈی آراوزکی معطلی کا لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ معطل کیاہے اور اس ضمن میں رٹ دائر کرنے والے کو شوکاز نوٹس بھی جاری کیاگیا ہے۔ اس دوران ایڈوکیٹ جنرل نے عدالت کو بتایا کہ 9مئی واقعات کے بعد ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ مجبورا 3ایم پی او کے آرڈر جاری کرنا پڑیں  چیف جسٹس نے کہا کہ کیا تین ایم پی او اورمختلف ایف آئی آرز ایک ساتھ چل سکتے ہیں کیونکہ اس میں بہت سے لوگوں کیخلاف ایف آئی آرز بھی درج کیے گئے ہیں۔ دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بہت سے آئینی نقاط الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیار میں آتے ہیں اور ڈی آراوز اور آراوز ان کا اختیار ہے۔ اس موقع پر جے یو آئی کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اس کیس میں نوٹس ہوا ہے جس پر جسٹس شکیل احمد نے استفسارکیاکہ وہ کونسا کیس ہے ، اس میں ہم نے کوئی نوٹس جاری نہیں کیا۔ چیف جسٹس نے ان سے استفسار کیا کہ آپکے خلاف کتنے ایم پی اوز کے آرڈرز جاری ہوئے ہیں، جس پر انہوں نے کہا کہ ہمارے قائد مولانا فضل الرحمان کیخلاف خصوصی قانون سازی کی گئی اورانہیں بھی سیاسی انتقام کا نشانہ بنایاگیا۔ بعدازاںعدالت نے قراردیاکہ وہ دوسرا کیس ہے اس کیس میں کوئی نوٹس جاری نہیں ہواجبکہ عدالت کی نگرانی میں الیکشن سے متعلق درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیاگیا ہے ۔