سولر پینلز کی درآمد میں اربوں کی نئی منی لانڈرنگ پکڑی گئی ہے۔ ڈی جی پی سی اے (پوسٹ کلیئرنس آڈٹ) چودھری ذوالفقار علی اور ڈائریکٹر پی سی اے سائوتھ شیراز احمد کی ہدایات و نگرانی میں پی سی اے کی ٹیم نے اس اسکینڈل کا سراغ لگایا۔
ایک مشتبہ ملزم کو گرفتار کیا گیا ہے اور ایک اور مشتبہ شخص کی گرفتاری کے لیے چھاپے جارہے ہیں۔ 9 ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں۔
ایک ایف آئی آر کے مطابق مشتبہ کمپنی کے خلاف وسیع تحقیقات کے بعد ڈائریکٹوریٹ نے تجارت کی بنیاد پر کی جانے والی منی لانڈرنگ میں 12 فرضی درآمد کنندگان کو اس کمپنی سے منسلک پایا۔
اس گروہ نے ایسے کاروباری اداروں کو چالاکی سے استعمال کیا جن کا وجود ہی نہیں تھا۔ کسٹمر کے طریق کار سے غلط فائدہ اٹھایا گیا اور سولر پینلز سمیت متعدد آئٹمز کی درآمد پر قومی خزانے کو 16 ارب روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
اس مالیاتی اسکینڈل میں ملوث کمپنیوں نے 11 ایسے کاروباری اداروں کے نام استعمال کیے جن کا وجود ہی نہیں تھا اور کلیئرنس آسان بنانے کے لیے انہیں لاہور کی متعلقہ کمپنی کے نیشنل ٹیکس نمبر میں شامل کیا گیا۔
درآمد کی جانے والی اشیا کی کلیئرنس میں غلط بیانی کی گئی یا انہیں گرین چینل سے کلیئر کروایا گیا۔ دستاویز میں درج ہے کہ جعلی فائنانشل انسٹرومینٹس بنائے گئے اور کمپنی کی مجموعی مالیت سے مطابقت نہ رکھنے والے فنڈز بروئے کار لائے گئے۔
اس اسکینڈل میں ایک شخص کو گرفتار کرکے 7 روزہ ریمانڈ لیا گیا ہے۔ اس پر اس فراڈ میں سہولت کاری کا الزام ہے۔ دوسرے مشتبہ شخص کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارے جارہے ہیں۔
ذرائع نے بتایا ہے کہ 2 کروڑ 20 لاکھ روپے کی ڈیوٹی بچانے کے لیے 50 شپنگ ڈاکیومنٹس استعمال کی گئیں جبکہ ایک ارب 60 کروڑ کے غیر قانونی فنڈز کو درآمدات کے لیے قابلِ استعمال بنانے کی خاطر 678 شپنگ ڈاکیومینٹس استعمال کی گئیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈل میں کمپنیوں اور افراد کے خلاف مقدمہ درج کرادیا گیا ہے۔ تحقیقات جاری ہے۔
ذرائع نے یہ بھی بتایا کہ ایف بی آر کی ہدایات پر سیکٹورل آڈٹ شروع کیا گیا اور اب تک پوسٹ کلیئرنس آڈٹ ڈائریکٹوریٹ سائوتھ کی طرف سے 9 ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں جن میں پشاور، کوئٹہ اور کراچی میں جعلی کمپنیوں کے ایک ایک گروہ کو نامزد کیا گیا ہے۔