اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب شہری کو معلومات حاصل ہوں گی تب ہی احتساب کا عمل شروع ہوگا قانوناً اطلاعات تک رسائی شہری کا حق ہے اور طلب کرنے پر معلومات دینا ادارے کی فراخدلی نہیں اس کا فرض ہے۔
اسلام آباد میں ایک ورکشاپ سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کہ معلومات تک رسائی عوام کا حق ہے اور عدالتی فیصلوں کی معلومات کورٹ رپورٹرز کے ذریعے ہی عوام تک پہنچتی ہیں، آئین کی دو شقیں ہیں ایک آرٹیکل انیس ہے جس میں آزادی صحافت کا ذکر ہے اور دوسری شق آرٹیکل انیس اے ہے، آرٹیکل انیس اے معلومات تک رسائی کا حق دیتا ہے۔
چیف جسٹس نے بتایا کہ سپریم کورٹ میں ایک عام شہری مختار احمد نے درخواست دائر کی جس میں شہری نے ہم سے ملازمین کی تفصیلات مانگیں، سپریم کورٹ نے سات روز میں رجسٹرار سپریم کورٹ کو معلومات فراہم کرنے کا حکم دیا۔
انہوں نے کہا کہ وفاقی حکومت کے تابع اداروں کو شہریوں کو معلومات تک رسائی دینا لازم ہے سپریم کورٹ قانون کے تحت تو نہیں لیکن آئین کے تحت اس کی پابند ہے اسی لیے رجسٹرار کو معلومات شہری کو دینے کا حکم جاری کیا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمارے ہر اہم فیصلے کی سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر معلومات دی جارہی ہیں ہر شہری اس تک رسائی حاصل کرسکتا ہے، اب سوال کرنے والے سے یہ نہیں پوچھا جائے گا کہ اسے معلومات کیوں چاہیئں؟ بلکہ وہ کہے گا میرا حق ہے، یہ بنیادی فرض ہے ادارے کا کہ وہ شہری کو معلومات دے یہ اس کی فراخدلی نہیں ہے بلکہ اس کا فرض اور شہری کا حق ہے۔
جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ جب شہری کو معلومات حاصل ہوں گی تب ہی احتساب کا عمل شروع ہوگا، بغیر مانگے معلومات فراہم کرنے سے شفافیت آتی ہے۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ میرے چیف جسٹس پاکستان بننے سے قبل چار سال فل کورٹ میٹنگ ہی نہیں ہوئی تھی اور اب سپریم کورٹ عدالتی کارروائی براہ راست دکھا رہا ہے براہ راست عدالتی کارروائی کا معیار درست کر رہے ہیں۔
انہوں ںے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلی سہ ماہی رپورٹ تاریخ میں پہلی بار جاری کی اس رپورٹ کا مقصد معلومات فراہم کرنا ہے جو عدالتی اہم فیصلے کیے وہ ویب سائٹ پر موجود ہیں، 4466 مقدمات کا اندراج ہوا اور 5305مقدمات نمٹائے گئے یعنی ہم نے اندراج سے زیادہ مقدمات نمٹائے، کوشش ہے کہ زیادہ سے زیادہ مقدمات نمٹائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم نے خود کو احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے، پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ خاتون ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو رجسٹرار سپریم کورٹ تعینات کیا گیا ہم بنیادی حقوق کا مونومنٹ (یادگار) بنا رہے ہیں جس پر ڈیزائنر مفت میں کام کر رہے ہیں مونومنٹ کے قیام کا مقصد عام آدمی تک رسائی ہے یہ یادگار عوام کے لیے تصاویر بنانے کے لیے کھلی رہے گی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ 36 فیڈرل اور سروسز ٹربیونل کراچی میں پھیلے ہوئے ہیں ججز کی نامزدگی طریقہ کار سے وکلاء برادری خوش نہیں تھی کمیٹی کام کر رہی ہے جلد ہی حل ہو جائے گا اچھے ججز مقرر کیے جانے چاہئیں تاکہ کام اچھا ہو ایک دوسرے کو شک کی نظر سے نہ دیکھیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کراچی میں سپریم کورٹ رجسٹری کے لیے سات ایکڑ اراضی ہائیکورٹ کے پاس مختص کی گئی تھی، سیکرٹری ہاؤسنگ کو کہا کہ 36 وفاقی عدالتیں اور ٹربیونلز کو اس مختص زمین پر منتقل کیا جائے، تمام وفاقی عدالتیں اور ٹربیونلز کرائے کی عمارتوں میں چل رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ مارشل لاء دور میں طلباء پر لگائی گئی پابندی کو ختم کرنے کا ہم نے کہا اور پہلے مرحلے میں قائداعظم یونیورسٹی میں طلباء یونین پر پابندی ہٹانے کا کہ، سو کے قریب شکایات ججز کے خلاف کچھ ججز کو بھیجی گئیں اگر صحیح کام کیا جاتا تو اتنی شکایات اکٹھی نہ ہوتیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جوڈیشل کمیشن میں نامزدگیوں کیلئے کمیٹی کام کر رہی ہے کمیٹی جلد ہی اپنا کام مکمل کر لے گی ہدف ایک ہی ہے کہ اچھے ججز تعینات کیے جائیں جو قانون کو اچھی طرح سمجھتے ہوں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ چیف جسٹس کئی یونیورسٹیوں کے سنڈیکیٹ کا ممبر ہوتا ہے، ملک کی تقدیر بدلنے کا یہی طریقہ ہے کہ تعلیمی اداروں کا معیار اچھا کیا جائے، قائداعظم یونیورسٹی کے سنڈیکیٹ اجلاس میں طلبہ یونینز بحال کرنے کا حکم دیا گیا، اسلامک یونیورسٹی کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کا اجلاس بھی ہوا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش کی جا رہی ہے سپریم جوڈیشل کونسل کو طریقے سے چلایا جایا پرانی شکایات سے آغاز کیا، جن شکایات پر رائے آ چکی تھی ان سے آغاز کیا، مزید 100 شکایات کچھ دن پہلے جائزے کیلئے ججز کو بھجوائی گئی ہیں۔
قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ کسی نے کہا تھا اپنا حال دل صحافیوں کو نہ سنانا کہ کہاں حال دل سنا بیٹھے، صحافی ایک ہی بات لکھیں گے کئی زاویوں سے۔