سال 2024 عام سال نہیں بلکہ یہ ایک لیپ ایئر ہے۔
مگر لیپ ایئر کیا ہوتا ہے؟ ہمیں اس کی ضرورت کیوں ہوتی ہے اور یہ کس طرح ہماری زندگی کا حصہ بنا؟
لیپ ایئر ایسے سال کو کہا جاتا ہے جو 365 کی بجائے 366 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
گریگورین کیلنڈر میں ہر 4 سال بعد لیپ ایئر آتا ہے اور اس کیلنڈر کو دنیا کے زیادہ تر حصوں میں استعمال کیا جاتا ہے۔
اس سال کا اضافی دن یا لیپ ڈے 29 فروری ہوتا ہے اور یہ تاریخ دیگر برسوں میں نہیں ہوتی۔
اس سال کو لیپ کہنے کی وجہ کافی دلچسپ ہے۔
ہوسکتا ہے کہ آپ نے کبھی غور نہ کیا ہو مگر مارچ کے بعد لیپ ایئر کی ہر تاریخ گزشتہ سال کے مقابلے میں ایک دن آگے چلی جاتی ہے۔
مثال کے طور پر یکم مارچ 2023 کو بدھ کا دن تھا مگر 2024 میں یکم مارچ کو جمعہ ہوگا، جبکہ لیپ ایئر نہ ہونے پر یہ جمعرات کا دن ہوتا۔
گریگورین کیلنڈر میں لیپ ایئر ، لیپ ڈے کے علاوہ لیپ سیکنڈ کا بھی اضافہ ہوتا ہے اور آخری بار ایسا 2016 میں ہوا تھا۔
مگر 2035 سے لیپ سیکنڈر کا استعمال ختم کیا جا رہا ہے۔
تو ہمیں لیپ ایئر کی ضرورت کیوں ہوتی ہے؟
بظاہر تو ایک اضافی دن کا اضافہ مضحکہ خیز لگتا ہے مگر لیپ ایئرز بہت اہم ہوتے ہیں اور ان کے بغیر کیلنڈر میں نظر آنے والے سال بتدریج مختلف نظر آنے لگے گے۔
گریگورین کیلنڈر سورج کے گرد زمین کے مدار پر مبنی ہے اور 365 دن پر مشتمل ہوتا ہے مگر یہ ایک شمسی سال سے کچھ چھوٹا ہے۔
ایک شمسی سال 365 دن، 5 گھنٹے، 48 منٹ اور 56 سیکنڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔
اگر اس فرق کا خیال نہ رکھا جائے تو ہر گزرتے برس کے ساتھ یہ وقفہ بڑھتا جائے گا اور بتدریج موسموں کا وقت بدل جائے گا۔
مثال کے طور پر اگر لیپ ایئر کا استعمال روک دیا جائے تو 700 برس بعد شمالی نصف کرے یا پاکستان میں موسم گرما کا آغاز جون کی بجائے دسمبر میں ہوگا۔
لیپ ایئر سے اس مسئلے سے بچنے میں مدد ملتی ہے کیونکہ سال میں ایک اضافی دن سے 4 برسوں میں آنے والے فرق کو دور کرنے میں مدد ملتی ہے۔
مگر یہ سسٹم مثالی نہیں کیونکہ ہر 4 سال بعد 44 منٹ اضافی ہو جاتے ہیں یا 129 برسوں میں پورا ایک دن۔
یہی وجہ ہے کہ ہر صدی کے اختتامی سال جیسے 2000 میں لیپ ایئر کا اطلاق نہیں ہوتا۔
اس کے بعد بھی کیلنڈر کے سال اور شمسی سال میں معمولی فرق رہ جاتا ہے جسے لیپ سیکنڈرز سے پورا کیا جاتا ہے۔
آسان الفاظ میں لیپ ایئر سے گریگورین کیلنڈر کو سورج کے وقت سے مطابقت پیدا کرنے میں مدد ملتی ہے۔
لیپ ایئر کی تاریخ
لیپ ایئر کا خیال 45 قبل مسیح میں رومی شہنشاہ جولیس سیزر نے جولین کیلنڈر کو متعارف کراتے ہوئے پیش کیا۔
اس کیلنڈر میں ایک سال 365 دنوں اور 12 مہینوں پر مشتمل تھا، جسے گریگورین کیلنڈر میں بھی برقرار رکھا گیا۔
جولین کیلنڈر میں ہر 4 سال بعد لیپ ایئر کا اضافہ اس لیے کیا گیا تاکہ وہ زمین کے موسموں سے مطابقت پیدا کر سکے۔
صدیوں تک ایسا لگا کہ جولین کیلنڈر مثالی انداز سے کام کر رہا ہے مگر 16 ویں صدی میں ماہرین فلکیات کو اندازہ ہوا کہ موسموں کا آغاز معمول سے 10 دن پہلے ہو رہا ہے جس سے مختلف شعبوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس کی روک تھام کے لیے پوپ گریگوری 13 نے 1582 میں گریگورین کیلنڈر متعارف کرایا جو لگ بھگ جولین کیلنڈر جیسا ہی ہے مگر اس میں صد سالہ برسوں میں لیپ ایئر کا نفاذ نہیں ہوتا۔
صدیوں تک اس کیلنڈر کو کیتھولک ممالک جیسے اٹلی اور اسپین میں ہی استعمال کیا گیا مگر بتدریج یہ دنیا کے دیگر حصوں میں رائج ہوگیا۔
مستقبل میں گریگورین کیلنڈر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ شمسی سال سے مطابقت برقرار رکھ سکے، مگر ایسا ہزاروں برس بعد ہوگا۔