پشاور میں روزانہ موبائل چھیننے اور ڈکیتی کے درجنوں واقعات روز کا معمول بن گئے جبکہ شہر میں اسٹریٹ کرائمز میں خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے۔
متاثرہ شہریوں کے مطابق روزانہ لوٹ مار اور ڈکیتی کے درجنوں واقعات رونما ہوتے ہیں جن میں سے محض چند کی رپورٹ تھانوں میں درج ہوتی ہے اور وہ بھی پولیس سادہ کاغذ پر شکایت لکھ کر معاملہ رفع دفع کردیتی ہے۔
شہریوں کا کہنا تھا کہ پشاور شہر پر اب چوروں، ڈکیتوں اور راہزنوں کا راج ہے، گن پوائنٹ پر شہریوں کو لوٹا جا رہا ہے، یہاں تک کہ مصروف ترین بازاروں میں بھی راہ چلتے شہریوں سے موبائل چھین لیے جاتے ہیں تاہم پولیس بھی مسلح راہزنوں کے سامنے بے بس نظر آتی ہے۔
متاثرین کے مطابق اس دھندے میں منظم نیٹ ورک ملوث ہے، مسلح راہزن موبائل چھیننے کے بعد اپنے ساتھیوں کو دے دیتے ہیں جو 500 سے 1000 روپے دیکر مارکیٹ میں سافٹ وئیر کے ذریعے موبائل کا ای ایم آئی نمبر تبدیل کروا لیتے ہیں،جس کے بعد انہیں فروخت کردیا جاتا ہے جبکہ چوری شدہ آئی فون موبائل غیر معروف راستوں کے ذریعے فروخت کیلئے افغانستان بھیج دیے جاتے ہیں۔
پولیس کے مطابق راہزنوں کے خلاف کاروائیاں جاری ہیں اور گزشتہ 6 ماہ کے دوران 153 ملزمان کو گرفتار جبکہ 6 کو مارا گیا ہے اور ملزمان سے کے قبضے سے 100 سے زائد چھینے گئے موبائل فون بھی برآمد کیے گئے ہیں۔
پولیس کے مطابق مناسب قانون سازی نہ ہونے سے ملزمان قانون کی گرفت سے نکل جاتے ہیں اور دوبارہ چوری اور ڈکیتی کی وارداتیں کرنے لگتے ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق شہر میں روزانہ 300 سے زیادہ شہریوں کو موبائل اور دیگر قیمتی سامان سے محروم کردیا جاتا ہے جن میں سے چند افراد ہی تھانوں کا رخ کرتے ہیں جبکہ بیشتر متاثرہ شہری مقدمات کے اندراج میں پولیس کے تاخیری حربوں کے باعث تھانے جانے سے گریز کرتے ہیں۔