افغانی ٹھیکیداروں کے دبئی میں جائیدادیں خریدنے کا انکشاف

2001 میں طالبان کے زوال کے بعد افغانستان کی تعمیرِ نو کے لیے اربوں امریکی ڈالرز خرچ کیے گئے لیکن بہت سے ٹھیکیداروں پر تعمیر نو کے فنڈز میں کمی کا الزام لگایا گیا، آج انہی میں کچھ لوگ دبئی میں لگژری پراپرٹیز کے مالک ہیں۔

 14 مئی کو آگنائزڈ کرائم اینڈ کرپشن رپورٹنگ پروجیکٹ (او سی سی آر پی) اور نارویجن آؤٹ لیٹ ای 24 کی جانب سے 6 ماہ کی تحقیقات کے بعد 58 ممالک کے 74 میڈیا آؤٹ لیٹس کے نامہ نگاروں نے تحلکہ خیز رپورٹ میں بدعنوانی کے الزام میں سزا یافتہ مجرموں، مفروروں، سیاسی شخصیات کا پردہ فاش کیا تھا جو دبئی میں کم از کم ایک جائیداد کی ملکیت رکھتے ہیں، ان میں معروف افغان شخصیات بھی شامل ہیں۔

افغان پارلیمنٹ کے سابق اسپیکر میر رحمٰن رحمانی اور ان کے بیٹے اجمل نے دبئی میں تقریباً ایک کروڑ 52 لاکھ ڈالرز کی جائیدادیں خریدیں۔

یہ انکشاف ایسے وقت میں سامنے آیا جب کچھ ماہ قبل کو امریکی محکمہ خزانہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا ان پر امریکی تعمیر نو کے فنڈز سے لاکھوں ڈالر لینے کا الزام تھا، انہوں نے 31 جنوری کو امریکی حکومت پر مقدمہ کر کے ان پابندیوں کو چیلنج کیا۔

دسمبر 2023 میں جاری ہونے والے پابندیوں کے نوٹس میں نہ صرف اجمل رحمانی کو نشانہ بنایا گیا بلکہ مبینہ طور پر ان کی ملکیت یا ان کے زیر کنٹرول کئی کمپنیوں کے اثاثے بھی منجمد کر دیے گئے۔

او سی سی آر پی، لائٹ ہاؤس رپورٹس اور ایٹلاٹ روز کی جانب سے کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں پتہ چلا کہ ان کمپنیوں نے دبئی میں جائیدادیں خریدی تھیں جبکہ امریکا کے مطابق یہ افغانستان میں بدعنوانی میں ملوث تھیں۔

امریکا کی طرف سے جن کمپنیوں کا ذکر کیا گیا ہے ان میں سے 2 دبئی میں اوشین ریزیڈینشیا اور فرن ہائٹس میں بڑے کمپلیکس بنانے کے لیے استعمال کیا گیا، جس میں کل 228 یونٹس ہیں جو ہر سال کرائے کی آمدنی میں 20 لاکھ ڈالرز سے زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔

او سی سی آر پی اور زیڈ ڈی ایف فرنٹل کے ایک پارٹنر کی نئی رپورٹس کے مطابق جرمنی میں زمین کی رجسٹری کے دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ اجمل رحمانی کی ملکیت والی 6 کمپنیوں کے پاس 19 کروڑ 70 لاکھ یورو مالیت کی جائیدادیں ہیں۔ اس اعداد و شمار کے بارے میں پوچھے جانے پر اجمل رحمانی نے تحریری جواب دیا کہ وہ اس کی تصدیق نہیں کر سکتے۔

دیگر افغان کنٹریکٹرز جن پر بدعنوانی کی اسکیموں میں ملوث ہونے کا الزام ہے، نے بھی دبئی میں جائیدادیں خریدی ہیں۔

ان میں راشد پوپل بھی شامل ہیں، جن کی نجی سیکیورٹی کمپنی کو 2010 کی کانگریس کی تحقیقات میں یہ پتہ چلا کہ وہ امریکی تعمیر نو کے فنڈز طالبان اور دیگر عسکریت پسندوں کے ساتھ ساتھ سپلائی روٹ کی چوکیوں کو کنٹرول کرنے والی سرکاری سیکیورٹی فورسز کو رشوت دینے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔

ایک اور سابق ٹھیکیدار، سعید اسمعٰیل امیری، جو کیلیفورنیا کے رہائشی ہیں، جنہیں افغان حکومت کو 10 کروڑ ڈالرز سے زائد کا دھوکا دینے کی اسکیم میں ملوث ہونے پر 15 ماہ قید کی سزا سنائی گئی۔ اس کے باوجود وہ دی میڈوز میں ایک وِلا کے مالک ہیں، جس کی قیمت آج تقریباً 16 لاکھ ڈالرز ہے۔ تاہم انہوں نے ان اعدادوشمار پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا ہے۔

سپریم گروپ کمپنی کے ایک پرنسپل اسٹیفن اورینسٹائن جس نے اپنی ذیلی کمپنیوں کے ساتھ افغانستان میں فوجی مشن کو خوراک اور پانی کے لیے زائد بلنگ کرنے پر امریکی حکومت کی جانب سے مجموعی طور پر 43 کروڑ 40 لاکھ ڈالرز کے جرمانے اور تصفیے کا سامنا کرنا پڑا، وہ آج امارات ہلز کمیونٹی میں ایک بنگلے کے مالک ہیں۔

یہ پراپرٹی آخری بار 2022 میں ایک کروڑ 68 لاکھ ڈالر میں فروخت ہوئی تھی، اورینسٹائن نے ایک نمائندے کے ذریعے بتایا کہ وہ اب اس بنگلے کے مالک نہیں ہیں اور واضح کیا کہ اس پراپرٹی کو خریدنے کے لیے امریکی معاہدوں سے کوئی رقم استعمال نہیں کی گئی۔

امریکی حکومت کے آڈیٹرز کا کہنا ہے کہ جنگ زدہ ملک میں دو دہائیوں کی مغربی مداخلت کے دوران تعمیر نو کے اربوں ڈالر کے فنڈز چوری کیے گئے یا غلط استعمال کیے گئے۔

افغانستان میں انسداد بدعنوانی کی ماہر نے کہا کہ ان کا خیال ہے کہ دھوکا دہی اور بدعنوان سیاستدانوں کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے کی کوششوں کو مغربی مشیروں نے ناکام بنا دیا جنہوں نے دلیل دی کہ ملک میں جو بھی ’محدود سیاسی استحکام‘ موجود ہے اسے برقرار رکھنا ضروری ہے۔