امریکی انتخابات میں مایوسی کا شکار ووٹرز ڈیموکریٹس سے ٹرمپ کی طرف مائل ہوئے، جس سے پارٹی اور یہودی لابی دونوں کو نقصان ہوا۔
امریکی تھنک ٹینک کی تحقیق کے مطابق 75 سے80 فی صد مسلمانوں نے ٹرمپ کو ووٹ دیا جبکہ 75 سے 80 فیصد یہودیوں نے ڈیموکریٹس کی حمایت کی۔
ایک لحاظ سے ڈیموکریٹک پارٹی، امریکا میں یہودیوں کی مضبوط لابی امریکن اسرائیل پبلک افیئرز کمیٹی اور یہودی ہار گئے۔
سی این این اور این بی سی کے ایگزٹ پولز کے مطابق 78فی صد یہودی کمیونٹی نےکملاہیرس جبکہ 22فیصد نے ڈونلڈ ٹرمپ کا انتخاب کیا۔
فاکس نیوز کے ایگزٹ پول میں یہ پتہ چلا ہے کہ 66 فیصد یہودی ووٹروں نے ہیرس کی حمایت کی اور 32فیصد نے ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ ایگزٹ پول میں 63 فیصد مسلم ووٹرز نے ہیریس کی حمایت کی جبکہ 32 فیصد نے ٹرمپ کی حمایت کی۔
امریکی جریدے فارن پالیسی کے مطابق مشی گن میں عرب اور مسلمان امریکی، خاص طور پر ڈیئربورن شہر میں، ڈیموکریٹک پارٹی سے دور ہو گئے اور ڈونلڈ ٹرمپ کے قریب ہوگئے۔
بائیڈن اورہیرس انتظامیہ کی اسرائیل کو غیر متزلزل فوجی امداد اور ڈیموکریٹک صدارتی امیدوار کملا ہیرس کی اسی پالیسی کو جاری رکھنے کی خواہش نے مشی گن میں عرب امریکی ووٹروں کو اس پارٹی سے دور کر دیا۔
ٹرمپ 2020 میں جو بائیڈن سے اسی ریاست سے ڈیڑھ لاکھ ووٹ سے ہار گئے تھے لیکن اب اسی ریاست سے وہ 80 ہزار ووٹوں سے جیت گئے۔
خلیجی اخبار کے مطابق ٹرمپ کی اقتصادی پالیسیاں جن میں کم ٹیکس، محدود حکومتی ضابطے، اور کاروباری مراعات نے بھی مسلم کمیونٹیوں کو راغب کیا ۔
رپورٹ کے مطابق تاریخی طور پرامریکا میں مسلمانوں نے بڑی حد تک ڈیموکریٹک پارٹی کی حمایت کی، ریپبلکن پارٹی سے بہت کم تعلق رہا۔ اس وقت مسلمانوں نے غزہ تنازع میں بائیڈن انتظامیہ کے کردار کو دیکھا جس میں امریکا نے بم، میزائل اور فنڈنگ فراہم کی۔ اگرچہ وہ ٹرمپ کی سخت بیان بازی سے واقف ہیں، تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ جنگ ختم کر سکتے ہیں۔
کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز کے ایگزٹ پول کے مطابق نصف سے بھی کم مسلم ووٹروں نے ہیرس کی حمایت کی۔ زیادہ تر مسلمان ووٹروں نے تیسرے فریق کے امیدوار یا ٹرمپ کو ووٹ دیا۔ 20 سے زیادہ برسوں میں یہ مسلم کمیونٹی کا تین امیدواروں کے درمیان تقسیم ہونے کا پہلا ایسا واقعہ ہے۔
اس سے قبل آخری بار امریکی مسلمانوں نے سن 2000 میں جارج ڈبلیو بش کی حمایت میں ریپبلکن پارٹی کو بھاری اکثریت سے ووٹ دیا تھا۔