اسلام آباد: وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ بدقسمتی سے 2018ء کے بعد سے سی پیک پر کام سست روی کا شکار ہوگیا اور اُس وقت کی حکومت کی وجہ سے سی پیک پر کام رک گیا۔
جے سی سی اجلاس کے بعد پریس بریفنگ میں احسن اقبال کا کہنا تھا کہ میرے لیے اعزاز کی بات ہے کے آج 13 میں سے دس اجلاس میں نے چئیر کیے، چین کی سرمایہ کاری آئی جو کہ توانائی، انفرااسٹرکچر اور دیگر شعبوں میں آئی، بدقسمتی سے 2018ء کے بعد سے سی پیک پر کام سست روی کا شکار ہوگیا اور اُس وقت کی حکومت کی وجہ سے سی پیک پر کام رک گیا۔
انہوں نے کہا کہ پانچ مختلف راہداریوں پر ہم نے چین کو کہا ہم ان پر آگے بڑھنے کیلئے تیار ہیں، جو پراجیکٹس پائپ لائن میں اور جو پراجیکٹس التوا میں تھے ان پر بھی کام تیزی سے شروع کر دیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ ایم ایل ون پر پاکستان کی طرف سے معاشی مسائل کے باعث کام تعطل کا شکار تھا، ایم ایل ون کی لاگت 6.8 ملین ڈالز پر سی ڈی ڈبلیو پی سے منظور ہوگئی ہے، یہ منصوبہ بھی 2018 سے زیر التواء تھا ہم نے کہا ہے کہ اس پر بڈنگ پراسیس شروع کیا جائے۔
احسن اقبال نے بتایا کہ فیر ٹو میں گوادر انفرا اسٹرکچر انرجی سے بڑھ کر ذرائع کے شعبے میں بھی کام کرنے سے متعلق جے سی سی اجلاس میں بات ہوئی، موسمیاتی تبدیلی کا معاملہ اور آبی ذخائز کو محفوظ کرنے سے متعلق بھی بات ہوئی، بلوچستان پاکستان کا منرل کیپٹل بنے گا، سیکیورٹی پر بھی بات کی گئی، ہمیں افسوس ہے داسو ڈیم پر جن چینی بھائیوں کی جانوں کو نقصان ہوا پاکستان جو بھی سیکیورٹی کے اقدامات کر رہا ہے اس پر آگاہ کیا گیا۔
انہوں نےکہا کہ سی پیک پاکستان کا قومی منصوبہ ہے، وزیراعظم کے دورہ چین کے موقع پر جے سی سی میٹنگ منٹس پر دستخط ہوں گے، سیکیورٹی پر دس ہزار اہلکاروں پر مبنی فورس بنائی ہوئی ہے، سیکیورٹی کے پروٹوکولز پر عمل درآمد کی پوری کوشش کرتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ دہشت گردی کے واقعات سی پیک کو متاثر کرنے کی کوشش ہیں، پہلے ایم ایل ون ٹریک کو 120 پر رکھیں گے پھر 160 پر کام کریں گے۔