وزیر دفاع اور سینئر لیگی رہنما خواجہ آصف نے کہا ہے کہ عدلیہ کو بھی اپنی صفوں میں بہتری کی بہت ضرورت ہے، ججز کو نہیں بلکہ اُن کے فیصلوں کو بولنا چاہیے۔
وزیر دفاع خواجہ آصف نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ہے کہ حکومت کی طرف سے عدلیہ کے ساتھ کسی قسم کے کوئی تصادم کی کیفیت نہیں ہے ، عالمی رینکنگ میں ہماری عدلیہ 138 ویں نمبر پر ہے۔ سیاسی نمائندوں کو اپنی صفوں میں بہتری کی ضرورت ہے لیکن عدلیہ میں بھی اپنی صفوں میں بہتری کی بہت ضرورت ہے۔
انہوں نے سوال اٹھایا کہ لوئر اور اعلیٰ عداتیں بتا دیں کہ ہمارا 138 ویں نمبر پر کیوں ہیں ؟ اور عدلیہ کے حوالے سے ہم نہیں کہہ رہے بلکہ یہ بین الاقوامی رینکنگ ہے۔ ماضی میں عدلیہ نے اپنے آپ کو استعمال ہونے کی اجازت دی ،عدلیہ سیاسی انتقام کا آلہ کار بنی یہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے معاملے پر جو اب صورتحال ہے وہ غیر معمولی ہے اور اگر عدلیہ کی عالمی سطح پر رینکنگ بہتر ہوتی ہے تو ہم ججز کے ہاتھ چومیں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ نے اپنے فیصلوں میں کہا کہ ججز کوئی بادشاہ نہیں، ججز کو آئین کو قانون کے دائرے میں رہ کر آپریٹ کرنا چاہیے۔
وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ چند ماہ سے ٹی وی پر عدلیہ کی پریزنس بہت بڑھ گیا ہے، ٹی وی پر عدلیہ کے ٹکرز کی تعداد بہت زیادہ ہے جو کہ عدلیہ کے لیے خود بھی ٹھیک نہیں، منصف کو اتنا ویزیبل نہیں ہونا چاہیے، ججز کو نہیں بولنا چاہیے ان کے فیصلے بولنے چاہیں ۔ تاہم انہوں نے کہا کہ موجودہ چیف جسٹس کے دور میں کچھ بہتری بھی ہوئی ہے ،یہ اچھی بات ہے کہ وہ اپنے ہاوس کو ان آرڈر بھی کر رہے ہیں۔
لا پتا افراد کے معاملے پر وفاقی وزیر خواجہ آصف نے بتایا کہ 2013 میں مجھے لاپتا افراد کیس میں عدالت بلایا گیا میں بطور وزیر دفاع عدالت میں پیش ہوا تھا، ڈیفنس سیکریٹری نے عذر پیش کیا اور مسنگ پرسن کے کیس میں ڈیفنس سیکریٹری پیش نہیں ہوئے تھے، مسنگ پرسن کی لسٹ میں تقریبا 3 سے 4 ہزار لوگوں کے نام تھے، ہم نے کہا تھا کہ یہ لسٹ مستند اور ٹھیک نہیں ہے، جس کے بعد فہرست تین ہزار سے ایک ہزار پر آگئی تھی۔