استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر 15 فیصد تک ریگولیٹری ڈیوٹی کی تجویز

  کراچی: مقامی آٹو انڈسٹری نے آئندہ مالی سال کے بجٹ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور ایڈیشنل کسٹم ڈیوٹی کی شرح کو سی بی یو گاڑیوں کے برابر لانے اور ان پر دی جانے والے فرسودگی الاؤنس کی شرح بھی 0.5فیصد کی سطح پر لانے کی تجویز دی ہے، حکام کا ماننا ہے کہ ان تجاویز پر عمل درآمد کی صورت میں حکومت کے آٹو سیکٹر سے محصولات 52ارب روپے تک کا اضافہ ممکن ہے۔

آئندہ بجٹ کے لیے مقامی آٹو انڈسٹری کی جانب سے دی گئی تجاویز میں 1300سی سی تک کی استعمال شدہ گاڑیوں پر صفر ریگولیٹری ڈیوٹی کو بالترتیب 15اور 7فیصد کی سطح پر لانے کی تجویز دی گئی ہے۔ 1300سے 1800سی سی تک کی استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی جو اس وقت صفر ہے اسے 15فیصد اور 7فیصد اضافی کسٹم ڈیوٹی عائد کرنے کی تجویز سامنے آئی جبکہ 1800سی سی سے زائد طاقت کی استعمال شدہ گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی کی شرح 70فیصد سے بڑھا کر 90فیصد اور بیگج رولز کے تحت درآمد ہونے والی استعمال شدہ گاڑیوں پر صفر اضافی کسٹم ڈیوٹی کو بھی 7فیصد کی سطح پرلانے کی تجویز دی ہے۔

انڈس موٹر کمپنی کے سی ای او علی اصغر جمالی نے کراچی میں صحافیوں سے ملاقات میں بتایا کہ لاکھوں افراد کو روزگار اور مقامی سطح پر تیار کردہ اربوں روپے کے پرزہ جات خریدتے ہوئے حکومت کو کسی بھی صنعت سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والی لوکل آٹو انڈسٹری کی راہ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی بے دریغ درآمد، سب سے بڑی رکاوٹ بن چکی ہے جس سے ایک طرف آٹو انڈسٹری میں کی گئی سرمایہ کاری کو خطرہ ہے دوسری جانب خود حکومت کو بھی محصولات میں کمی کا سامنا ہے۔

علی اصغر جمالی نے کہا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کو دی جانے والی کھلی چھوٹ اور درآمدی اسکیموں کے غلط استعمال سے لوکل صنعت بحران کا شکار ہے۔ تین سال کے عرصے میں مارکیٹ کا توازن بری طرح بگڑ چکا ہے اور استعمال شدہ گاڑیوں کا مارکیٹ شیئر مالی سال 2022 کی 8فیصد کی سطح سے بڑھ کر مالی سال 2024میں 28فیصد کی سطح پر آچکا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ریگولیٹری نرمی کی وجہ سے جولائی تا اپریل کے دوران استعمال شدہ گاڑیوں کی اوسط ماہانہ درآمد 3068یونٹس رہی جس کی وجہ سے مقامی سطح پر تیار کی جانے والی گاڑیوں کی ماہانہ فروخت میں 2633یونٹس کی کمی آئی ہے، اگر استعمال شدہ درآمدی گاڑیوں کی جگہ مقامی سطح پر تیار کی جانے والی گاڑیاں فروخت ہوتیں تو پرزہ جات کی مقامی صنعت سے 45ارب روپے کے پرزہ جات خریدے جاتے جس سے نہ صرف روزگار کے مواقع بڑھتے بلکہ حکومت کو بھی بھاری ریونیو حاصل ہوتا اور معاشی سرگرمیاں تیز کرنے میں مدد ملتی۔

علی اصغر جمالی نے کہا کہ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے سرمایہ غیرقانونی طریقے سے منتقل کیا جاتا ہے جبکہ مقامی صنعت کے لیے 100فیصد درآمد بینکنگ چینل سے کی جاتی ہے۔ مالی سال 2021-22کے دوران مقامی صنعت نے قانونی طریقے سے 3ارب 46کروڑ 80 لاکھ ڈالر کی درآمد کی اور 3لاکھ 42ہزار 90گاڑیاں فروخت کرتے ہوئے اوسطا ایک گاڑی پر 10ہزار 138ڈالر کا زرمبادلہ خرچ کیا تاہم اسی عرصے میں 36ہزار 431استعمال شدہ گاڑیاں درآمد کی گئیں جن پر اوسطا 14ہزار ڈالر سے زائد کا زرمبادلہ غیرقانونی طریقے سے ملک سے باہر بھیجا گیا جس نے پاکستان کی شرح مبادلہ کو متاثر کیا۔

انہوں نے کہا کہ آٹو انڈسٹری نے وفاقی وزارت خزانہ، وزارت تجارت، وزارت صنعت و پیداوار، ایف بی آر اور وزیر اعظم پاکستان کو استعمال شدہ گاڑیوں کی بڑے پیمانے پر درآمد کے مقامی صنعت اور ملکی معیشت پر منفی اثرات سے آگاہ کرتے ہوئے آئندہ بجٹ میں استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد پر ریگولیٹری ڈیوٹی اور اضافی کسٹم ڈیوٹی کی شرح سی بی یو گاڑیوں کے برابر لانے کی تجویز دی ہے اس تجویز پر عمل درآمد کے ساتھ استعمال شدہ گاڑیوں کی درآمد کے لیے غیرقانونی طریقوں اور بیرون ملک مقیم محنت کشوں کے پاسپورٹ غلط طریقے سے استعمال کیے جانے کی روک تھام پر بھی زور دیا ہے۔

علی اصغر جمالی نے کہا کہ مقامی صنعت کی تجاویز پر عمل کیا جائے تو حکومت آٹو سیکٹر سے وصول ہونے والے 84ارب روپے کے محصولات میں صرف ایک سال کے دوران 52ارب روپے کا اضافہ کرسکتی ہے، آٹو سیکٹر سے وصول ہونے والے ٹیکسز کی مالیت 136ارب روپے تک بڑھائی جاسکتی ہے جبکہ مقامی سطح پر تیار گاڑیوں کا مارکیٹ شیئر بڑھنے سے ٹیکسز کے ساتھ روزگار کے مواقع بھی بڑھائے جاسکتے ہیں