کیا آپ کو معلوم ہے کہ زمانہ قدیم میں زمین کا ایک دن 24 کی بجائے 18 گھنٹوں کا ہوتا تھا؟ یا آپ کو معلوم ہے کہ ایک بار رومی شہنشاہ جولیس سیزر نے سال کا دورانیہ 445 دن کر دیا تھا؟
وقت ایک پراسرار چیز ہے اور اس کے بارے میں ہمیں کافی کچھ معلوم نہیں مگر اس سے جڑی چند چیزیں ایسی ہیں جو آپ کو دنگ کر دیں گی۔
زمین کا ہر فرد ماضی میں زندگی گزار رہا ہے
سننے میں تو یہ کسی سائنس فکشن ٹائم ٹریول فلم کا خیال لگتا ہے مگر یہ انسانی بائیولوجی کی ایک حقیقت ہے۔
ہمارے سامنے جو کچھ ہوتا ہے، ہمارا دماغ اسے 80 ملی سیکنڈز تاخیر سے سمجھتا ہے۔
یعنی ہم جو کچھ دیکھتے یا سمجھتے ہیں وہ 80 ملی سیکنڈز پرانا ہوتا ہے تو کچھ سائنسدانوں کے خیال میں حال کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں۔
ہر فرد کے لیے وقت گزرنے کا احساس مختلف ہوتا ہے
ہوسکتا ہے کہ آپ نے محسوس کیا ہو کہ جب کسی کام کا طے شدہ وقت ختم ہونے والا ہو یا آپ کسی تفریحی سرگرمی میں شامل ہو تو وقت بہت تیزی سے گزرنے لگتا ہے۔
البتہ جب آپ بیزار ہوتے ہیں تو وقت کی رفتار بھی تھم جاتی ہے۔
ایسا اس لیے ہوتا ہے کیونکہ جب آپ کسی چیز پر پوری توجہ مرکوز کرتے ہیں تو دماغ وقت گزرنے پر دھیان نہیں دیتا۔
مگر جب آپ بیزار ہوتے ہیں یا دماغ زیادہ متحرک نہیں ہوتا تو پھر وقت گزرنے کا احساس زیادہ ہوتا ہے یا یوں کہہ لیں وہ سست روی سے گزرتا محسوس ہوتا ہے۔
ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ جب ہم خوشی محسوس کرتے ہیں تو ڈوپامائن نامی ہارمون کا اخراج ہوتا ہے اور جسم میں اس کی مقدار بڑھنے سے اندرنی جسمانی گھڑی سست ہوتی ہے جبکہ وقت تیزی سے گزرتا ہوا محسوس ہوتا ہے۔
کشش ثقل نے زمین کے ایک دن کا دورانیہ بڑھایا
ایک ارب سال پہلے زمین میں ایک دن 18 گھنٹوں کا ہوتا تھا۔
مگر چاند کی کشش نے زمین کے گھومنے کی رفتار سست کیا جس کے نتیجے میں بتدریج دن کا دورانیہ بڑھنے لگا۔
لمبے دنوں کا مطلب یہ بھی ہے کہ سال دورانیہ گھٹ گیا۔
سائنسدانوں کے خیال میں 7 کروڑ سال پہلے دن کا دورانیہ ساڑھے 23 گھنٹے تھا اور سال 372 دنوں کا ہوتا تھا۔
اے ایم اور پی ایم کا مطلب کیا ہے
دنیا میں اب وقت کے 2 نظام کام کررہے ہیں جن میں سے ایک ملٹری ٹائم یا 24 گھنٹے کا سسٹم جبکہ دوسرا 12 گھنٹے کا ٹائم کیپنگ سسٹم۔
ملٹری سسٹم میں اے ایم اور پی ایم کی ضرورت نہیں کیونکہ اس سسٹم میں ایک سے 23 تک نمبر استعمال ہوتے ہیں، یعنی نمبر دوبارہ دہرانے نہیں پڑتے، جس کے لیے دوسرے سسٹم میں اے ایم اور پی ایم کو استعمال کیا جاتا ہے۔
انگلش بولنے والے بیشتر ممالک میں اے ایم اور پی ایم کو دن اور رات کے وقت کو ظاہر کرنے کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، مگر وہاں بھی بیشتر افراد کو علم نہیں کہ یہ دونوں کن الفاظ کے مخفف ہیں۔
تو اگر آپ کو بھی اس کا علم نہیں تو جان لیں کہ اے ایم لاطینی جملے ante meridiem کا مخفف ہے جس کا مطلب دوپہر سے پہلے یا بی فور نون ہے۔
جہاں تک پی ایم کی بات ہے تو یہ لاطینی جملے post meridiem کا مخفف ہے جس کا مطلب دوپہر کے بعد یا آفٹر نون ہے۔
دن کے دورانیے کو جانچنے کے 2 پیمانے
ویسے تو یہ کہا جاتا ہے کہ زمین کا ایک دن 24 گھنٹے طویل ہوتا ہے، مگر ہمارے سیارے کو اپنے محور کے گرد گھومنے میں 23 گھنٹے 56 منٹ اور 4.0916 سیکنڈز لگتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ دن کے دورانیے کو شمسی دن اور sidereal day جیسے پیمانوں سے جانچا جاتا ہے۔
ایک شمسی دن 24 گھنٹوں کا ہوتا ہے جبکہ sidereal day 4 منٹ چھوٹا ہوتا ہے۔
شمسی دن میں وقت کا تعین آسمان پر سورج کی پوزیشن سے کیا جاتا ہے جبکہ sidereal day میں آسمان پر موجود ستاروں کی پوزیشن کو مدنظر رکھا جاتا ہے۔
لیپ سیکنڈ
ہر چند سال بعد سورج اور چاند کی کشش کی وجہ سے زمین کی گردش میں ایک سیکنڈ کا فرق آجاتا ہے جسے ماہرین کی جانب سے مخصوص اوقات میں گھڑی میں ایک اضافی سیکنڈ سے پورا کیا جاتا ہے۔
لیپ سیکنڈ کا مقصد زمین کی گردش سے بالکل درست وقت بتانے والی گھڑیوں کو ملانا ہے جو کہ چاند اور سورج کی کشش ثقل سے متاثر ہوتی ہیں۔
مگر یہ اضافی سیکنڈ کمپیوٹر سسٹمز کے لیے بھاری ثابت ہوتا ہے کیونکہ وہ ٹائم کیپنگ نیٹ ورک پر انحصار کرتے ہیں۔
لیپ سیکنڈ کی تبدیلی کے باعث 2012 میں سوشل میڈیا سائٹ ریڈیٹ کی سروس بری طرح متاثر ہوئی تھی جبکہ موزیلا، لنکڈن اور دیگر سروسز کو بھی مسائل کا سامنا ہوا۔
2017 میں لیپ سیکنڈ کے باعث کلاؤڈ فلیئر کے نیٹ ورک اسٹرکچر کو نقصان پہنچا۔
سال کا دورانیہ بھی کچھ پیچیدہ ہے
اصلی رومی کیلنڈر سے موسموں کا تعین کرنا اتنا مشکل ہوگیا تھا کہ 46 قبل مسیح میں جولیس سیزر نے سال کا دورانیہ 445 دن کا کر دیا تاکہ کیلنڈر موسموں کے مطابق درست ہوسکے۔
جولیس سیزر نے ہی کیلنڈر میں تبدیلی کے لیے ماہرین سے رجوع کیا اور 45 قبل مسیح میں جولین کیلنڈر متعارف کرایا۔
اس کیلنڈر میں ایک سال 365 دنوں اور 12 مہینوں پر مشتمل تھا، جسے گریگورین کیلنڈر میں بھی برقرار رکھا گیا۔
جولین کیلنڈر میں ہر 4 سال بعد لیپ ایئر کا اضافہ اس لیے کیا گیا تاکہ وہ زمین کے موسموں سے مطابقت پیدا کر سکے۔
صدیوں تک ایسا لگا کہ جولین کیلنڈر مثالی انداز سے کام کر رہا ہے مگر 16 ویں صدی میں ماہرین فلکیات کو اندازہ ہوا کہ موسموں کا آغاز معمول سے 10 دن پہلے ہو رہا ہے جس سے مختلف شعبوں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
اس کی روک تھام کے لیے پوپ گریگوری 13 نے 1582 میں گریگورین کیلنڈر متعارف کرایا جو لگ بھگ جولین کیلنڈر جیسا ہی ہے مگر اس میں صد سالہ برسوں میں لیپ ایئر کا نفاذ نہیں ہوتا۔
ایک شمسی سال 365 دن، 5 گھنٹے، 48 منٹ اور 56 سیکنڈز پر مشتمل ہوتا ہے۔
مستقبل میں گریگورین کیلنڈر کو تبدیل کرنے کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ شمسی سال سے مطابقت برقرار رکھ سکے، مگر ایسا ہزاروں برس بعد ہوگا۔
ٹرین پکڑنے میں ناکامی پر ایک شخص نے ٹائمز زونز قائم کیے
سینڈفورڈ فلیمنگ نامی شخص 1876 میں ٹرین پر سوار ہونے میں ناکام رہا تو اس نے دنیا کو 24 ٹائم زونز میں تقسیم کرنے کا خیال پیش کیا۔
اسی خیال پر یونیورسل ٹائم نامی نظام کا قیام عمل میں آیا اور 1884 میں ایک کانفرنس کے دوران دنیا کو 24 ٹائم زونز میں تقسیم کر دیا گیا۔
یہ کانفرنس برطانیہ کے علاقے گرین وچ میں ہوئی اور اسی کے بعد جی ایم ٹی کی اصطلاح استعمال ہونے لگی۔
مگر ٹائم زونز کافی پیچیدہ ہوتے ہیں
بڑے ممالک جیسے امریکا اور کینیڈا میں متعدد ٹائمز زونز کو اپنایا گیا مگر چین جیسے بڑے ملک میں صرف ایک ٹائم زون بیجنگ اسٹینڈرڈ ٹائم کو اپنایا گیا ہے۔
اس کے نتیجے میں وہاں وقت کا حساب رکھنا آسان نہیں اور کچھ علاقے تو ایسے ہیں جہاں سورج صبح 10 بجے تک بھی طلوع نہیں ہوتا یا رات گئے غروب ہوتا ہے۔
ہزاروں سال سے لوگ وقت کو ٹریک کر رہے ہیں
2013 میں ماہرین آثار قدیمہ نے دنیا کا قدیم ترین قمری کیلنڈر دریافت کیا تھا۔
یہ کیلنڈر اسکاٹ لینڈ میں دریافت ہوا تھا اور اس میں چاند کے مختلف مراحل کو مدنظر رکھا گیا تھا۔
ماہرین کے خیال میں یہ کیلنڈر 8 ہزار قبل قبل مسیح کے عہد میں تیار کیا گیا تھا۔
نئی گھڑیوں میں ہمیشہ 10:10 کا وقت سیٹ کیا جاتا ہے
اگر آپ نئی گھڑی یا کلاک خریدیں تو اس پر ہمیشہ 10:10 کا وقت سیٹ ہوگا۔
اس وقت کو سیٹ کرنے کے حوالے سے متعدد خیالات سامنے آتے ہیں جیسے ایسا کرنے سے اینالاگ کلاک کی سوئیاں زیادہ اچھی نظر آتی ہیں جبکہ گھڑی کے وسط میں موجود لوگو چھپتا نہیں۔