برطانوی ماہرین آثار قدیمہ نے ترکیہ میں دنیا کا قدیم ترین کیلنڈر دریافت کیا ہے جسے تقریباً 12 ہزار سال قبل ستون پر تراشا گیا تھا۔
سرکاری خبر رساں ادارے کے مطابق تر کیہ میں اناطولیہ کے پہاڑوں میں واقع گوبیکلی ٹیپے کے مقام پر دریافت ہونے والے نظام الاوقات سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ یونان میں تاریخوں کو دستاویزی شکل دینے سے 10 ہزار سال قبل درست طریقے سے تاریخوں کا ریکارڈ رکھا کرتے تھے۔
یونان میں ڈیڑھ سو سال قبل مسیح سے تاریخوں کا ریکارڈ رکھا جاتا تھا،ان نشانات کا تجزیہ کرتے ہوئے ایڈنبرا یونیورسٹی کی ٹیم نے اس مقام کے ایک ستون پر ’وی‘ کی شکل میں بنی 365 علامتیں دریافت کیں جن میں سے ہر علامت ایک دن کو ظاہر کرتی ہے۔
محققین کا کہنا ہے کہ اس قدیم ترین کیلنڈر میں 12 قمری مہینے اور 11 اضافی دن بھی دکھائے گئے ہیں،مزید برآں، یہ نقش و نگار دمدار ستارے کے زمین کے ساتھ ٹکرانے کے عمل کو ظاہر کرتے ہیں جس نے 13 ہزار سال قبل بڑے جانوروں کا صفایا کر دیا اور1200سال تک جاری رہنے والے مختصر دورانیے کے برفانی دور کا آغاز کیا،دمدار ستارے کے زمین کے ساتھ ٹکرانے کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ اس سے انسانی تہذیب کی تشکیل ہوئی۔
زراعت اور مذہب میں نئے رجحانات کا آغاز ہوا،یونیورسٹی آف ایڈنبرا کے سکول آف انجینئرنگ کے ڈاکٹر مارٹن سویٹ مین جنہوں نے اس تحقیق کی قیادت کی، نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ گوبیکلی ٹیپے کے مکین آسمان پر گہری نظر رکھتے تھے، جس کی توقع کی جا سکتی ہے کیونکہ ان کی دنیا دمدار ستارے کے ٹکرانے سے تباہ ہوئی تھی۔
اس واقعے نے نئے مذہب کی شروعات اور سرد آب و ہوا سے نمٹنے کے لیے زراعت میں ترقی کی ترغیب دے کر تہذیب کو متحرک کیا ہوگا،ممکن ہے کہ انہوں نے جو کچھ دیکھا اس کا ریکارڈ رکھنے کا عمل ہزاروں سال بعد تحریر کے وجود میں آنے کا آغاز ہو۔
گوبیگلی ٹیپے جہاں انسانوں کی بنائی دنیا کی قدیم ترین ساختیں پائی جاتی ہیں، خوراک کے لیے شکار کرنے والے لوگوں نے 8200 اور 9600 قبل مسیح کے درمیان تعمیر کیا۔ یہ مقام برطانیہ کی قبل از تاریخ کے دور کی یادگار سٹون ہینج سے 6000 سال سے زیادہ قدیم ہے۔
درحقیقت اس یادگار کی تعمیر کا کیا مقصد تھا، اس بات نے ماہرین کو چکرا کر رکھ دیا ہے تاہم بہت سے ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ یادگار مذہبی رسومات، مثال کے طور پر آخری رسومات کے لیے بنائی گئی۔
محققین کا کہنا ہے کہ گوبیکلی ٹیپے کے مقام پر پائی جانے والی علامتیں موسم گرما کے طویل ترین دن کو بھی الگ سے ظاہر کرتی ہیں، اس مقصد کے لیے انگریزی زبان کے حرف ’وی‘ کو پرند ہ نما درندے کے گلے میں پہنا دکھایا گیا ہے۔
تحقیق کے جریدے ٹائم اینڈ مائنڈ میں شائع ہونے والے نتائج سے معلوم ہوتا ہے کہ ان قدیم انسانوں نے تاریخوں کو ریکارڈ کرنے کے لیے زمین کے محور میں بتدریج ہونے والی تبدیلی سے کام لیا جو تاریخوں کا ریکارڈ رکھنے کے لیے آسمان پر ستاروں کے جھرمٹوں کی حرکت کو متاثر کرتی ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ یہ علامتیں قمری اور شمسی چکروں کو بھی ظاہر کرتی ہیں۔ ان علامات کے بارے میں محققین کا کہنا ہے کہ وہ سورج اور چاند کی حرکت کو اکٹھا کر کے دنیا کا قدیم ترین کیلیڈر بناتی ہیں۔