پاکستان تحریک انصاف سے بالواسطہ بات چیت کیلئے نون لیگ محمود خان اچکزئی سے رابطے میں ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ نون لیگ کے سینئر رہنما اور وزیراعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثناء اللّٰہ کو پارٹی قیادت نے اچکزئی سے بات کرنے کی ذمہ داری دی ہے۔ تاہم، نون لیگ کا اصرار ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ اس کے اور اس کی اتحادی جماعتوں کے مذاکرات براہِ راست ہوں۔ کہا جاتا ہے کہ بالواسطہ بات چیت فضول مشق ہوگی۔
اگر پی ٹی آئی کو لگتا ہے کہ اس کے حامی اور ووٹرز پی ٹی آئی کے نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سے مذاکرات کی حمایت نہیں کریں تو ایسی صورت میں نون لیگ نے مبینہ طور پر اچکزئی کے توسط سے پی ٹی آئی کو براہِ راست لیکن پس پردہ مذاکرات کی پیشکش کی ہے۔
ان ذرائع کا کہنا ہے کہ اچکزئی کو کہا گیا ہے کہ وہ براہ راست مذاکرات کیلئے پی ٹی آئی کی اعلیٰ قیادت سے مشاورت کریں جس کیلئے تحریک انصاف کو مذاکرات کیلئے کمیٹی نامزد کرنا چاہئے جو پس پردہ بات چیت کر سکے۔
پشتونخوا ملی عوامی پارٹی (پی کے ایم اے پی) کے چیئرمین اور غیر فعال اپوزیشن کے اتحاد تحریک تحفظ آئین پاکستان (ٹی ٹی اے پی) کے سربراہ محمود اچکزئی کو عمران خان اور پی ٹی آئی نے حکومت کے ساتھ مذاکرات کا مینڈیٹ دیا تھا تاکہ ملک میں ’’سیاسی استحکام‘‘ لایا جا سکے، پارٹی کا ’’چوری شدہ‘‘ مینڈیٹ واپس لیا جا سکے اور پارٹی کے قید کارکنوں کی رہائی کو یقینی بنایا جا سکے۔
بیرسٹر گوہر علی خان نے چند ماہ قبل میڈیا کو بتایا تھا کہ انہوں نے پارٹی کے دیگر رہنماؤں کے ساتھ پی ٹی آئی کے بانی چیئرمین کو باور کرایا تھا کہ حکومت کے ساتھ مذاکرات کا آغاز ضروری ہے جس کے بعد عمران خان نے اس کی منظوری دے دی تھی۔ تاہم، یہ کہا گیا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت میں شامل تین جماعتوں (نون لیگ، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم) سے براہ راست مذاکرات نہیں کرے گی۔
پی ٹی آئی کی جانب سے محمود خان اچکزئی کو حکومتی جماعتوں سے بات چیت کا مینڈیٹ دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ پی کے میپ کے چیئرمین کو مینڈیٹ دینے کے بعد عمران خان نے ایک سے زائد مرتبہ میڈیا سے بات چیت میں کہا تھا کہ اچکزئی ملٹری اسٹیبلشمنٹ سے بات کریں گے۔ تاہم ملٹری اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان یا پی ٹی آئی سے بات کی کوئی خواہش ظاہر نہیں کی۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے چند ہفتے قبل ایک پریس کانفرنس میں مذاکرات کیلئے 9؍ مئی کے حملوں پر عوامی معافی کی شرط رکھی تھی۔
فوجی ترجمان نے مزید کہا تھا کہ سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات ہونے چاہئیں۔ عمران خان کے برعکس، محمود خان اچکزئی سیاسی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کے حق میں ہیں اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سیاست پر بات چیت کے مخالف ہیں۔